صحافیوں نے میڈیا کورٹس کے قیام کا حکومتی فیصلہ مسترد کردیا




 میڈیا کورٹس بنانے کے حکومتی اقدام کو صحافیوں کی تنظیموں نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عدالتیں صحافیوں پر دباؤ کا آلہ ثابت ہوں گی۔صحافیوں کی نمائندہ تنظیم فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ میڈیا کورٹس صحافیوں پر دباؤ کا آلہ ثابت ہوں گی، ایسی عدالتیں آمرانہ اور مارشل لا دور کی یاد دلاتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا نعرہ لگانے والی حکومت سے ایسی توقع نہیں تھی۔ صحافتی تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان میڈیا ٹریبونلز کے قیام کا فیصلہ فوری واپس لیں، اس کے علاوہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی میڈیا کورٹس کے قیام کی مخالفت کی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ میڈیا سے متعلق پالیسی بنانا حکومت کا کام نہیں ہے، میڈیا ہاؤس کے مالکان، مدیران اور صحافیوں کی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں تو ایسے میں حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے میڈیا ٹریبونلز قائم کرے، اس کا سیدھا مقصد میڈیا پر مزید پابندیاں لگانا اور آزادی اظہار رائے کے مواقع مزید کم کرنا ہے۔

وفاقی حکومت نے منگل سترہ ستمبر کو کابینہ کے اجلاس میں میڈیا ٹریبونلز کا فیصلہ کیا تھا۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے معاون اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ پیمرا میں زیر التوا مقدمات ان ٹریبونلز کو منتقل کردیے جائیں گے، ایسے مقدمات کے فیصلے نوے دن میں سنادیے جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹریبونلز میڈیا انڈسٹریز کے حوالے سے معاملات نمٹائیں گے جبکہ ان ٹریبونلز کی نگرانی اعلیٰ عدالتیں کریں گی۔
وفاقی کابینہ کا خصوصی میڈیا ٹریبونلز قائم کرنے کا فیصلہ


کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.