پت جھڑ کا موسم اور بارہواں کھلاڑی




اکتوبر پت جھڑ کا موسم ہے اور اسی موسم میں مولانا فضل الرحمان نے حکومت  کےخلاف آزادی مارچ کا  اعلان کیا ہے۔ یہ وہی مولانا فضل الرحمان ہیں جنہیں آج کل اقتدار کے ایوانوں میں بارہواں کھلاڑی کہاجاتا ہے لیکن اس وقت جو منظر نامہ ترتیب دیا جارہا ہے اس میں اس بارہویں کھلاڑی کا کردار  انتہائی اہم ہوگیا ہے اور ایسا لگنے لگا ہے کہ  یہ بارہواں کھلاڑی  ہی  میچ کا نقشہ اور  نتیجہ بدلنے کی صلاحیت  رکھتا ہے۔مولانا صاحب اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں انہیں پتہ  ہے کہ گیند کب ریورس سوئنگ ہوتی ہے اور وکٹ  کب ان جیسے بولر کے لیے سازگار ہوتی ہے ، وہ بلے باز کی کمزوریوں سےبھی  بخوبی واقف ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بلے باز  کس گیند پر آؤٹ ہوسکتا ہے ،  انہیں معلوم ہے کہ ہوائیں ہمیشہ  بولر کی مدد کرتی ہیں موقع کی مناسبت سے وہ یار کر پھینکتے ہیں، باؤنسر، ان سوئنگر یا آؤٹ سوئنگر یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے اور یہ موقع بلے باز نےخود فراہم کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے روز اول سے اس حکومت کو تسلیم نہیں کیا ، وہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان عوامی مینڈیٹ سے نہیں آئے  بلکہ لائے گئے ہیں لیکن یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ کرپشن کے مقدمات میں  گھری اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے کبھی بھی کھل کر مولانا کی حمایت نہیں کی۔ ان جماعتوں کے رہنما اب بھی شائد کھل کر مولانا صاحب کا  ساتھ نہ دیں کیونکہ آصف زرداری ہمشیرہ کے ساتھ جیل میں کسی این آر او کے منتظر ہیں، نوازشریف بیٹی کے ساتھ پابند سلاسل ہیں اگر چہ نوازشریف نے پارٹی رہنماؤں کو کھل کر مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے  لیکن پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اب بھی ہچکچارہے ہیں، یہ ان کی محتاط سیاست ہے یا وہ مقدمات سے تنگ آچکے ہیں  دونوں صورتوں میں وہ انتہا تک نہیں جانا چاہتے۔

 شہبازشریف اور ان کے ہمنوا کچھ بھی سوچیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر نوازشریف نے مولانا فضل  الرحمان کے مارچ کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر لیگی کارکن اس مارچ میں شرکت کریں گے  کیونکہ یہ صرف نوازشریف کی ہدایت ہی نہیں ہوگی بلکہ کارکنوں کے دل کی آواز بھی ۔ دوسری جانب مقدمات کے علاوہ پیپلزپارٹی کے قائدین کی ایک اور مجبوری بھی ہے۔  بلاول سمیت پارٹی کے آزاد خیال رہنما سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان مذہبی کارڈ کی بنیاد پر حکومت گرانے اسلام آباد آرہے ہیں ایسےمیں مولانا کا  ساتھ دینے کا مطلبب پارٹی منشور کی خلاف ورزی ہوگی اس  لیے پیپلزپارٹی نے جے یو آئی کے آزادی مارچ کی اخلاقی حمایت کا اعلان تو کیا ہے  لیکن عملی طور پر مارچ میں شرکت سے گریزاں ہے۔  

ن لیگ اور پی پی ساتھ دے یا نہ دے  مولانا کو اس سے فرق نہیں پڑتا ، ان کے پاس اسٹریٹ پاور  ہے  اور وہ تیاری بھی کرچکے ہیں ، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پندرہ لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لائیں گے ۔ پندرہ لاکھ نہ سہی ایک لاکھ لوگ بھی اگر دوسرے صوبوں سے اسلام آباد میں داخل ہوگئے تو حکومت کے لیے انہیں سنبھالنا آسان نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مولانا کو یہ سازگار وکٹ حکومت نے خود فراہم کی ہے۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں نا  اہلیوں کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔ مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ، معیشت زبوں حالی کا شکار ہے، بےروزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومت کے کارنامے یا تو صرف اعلانات تک محدود ہیں یا سوشل میڈیا پر  جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی ریاست مدینہ میں عام آدمی سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ حکومتی ٹیم میں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی، واحد کام جو تسلسل اور سنجیدگی سے ہورہا ہے وہ اپوزیشن کو دبانا، آئے روز نئے کیسز بنانا اور مخالفین کو احتساب کے نام پر جیلوں میں ڈالنا ہے اس میں حکومت اس حد تک کامیاب ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی پہلی قطار میں موجود تمام ناپسندیدہ چہرے اب نظر نہیں آرہے۔ وزراء کا کام صرف  الزام تراشی اور بیان بازی تک محدود ہے، ملک بھر میں تعلیم، صحت اور انفرا اسٹرکچر کا برا حال ہے، ایسے میں مولانا  کو بھرپور عوامی تائید حاصل ہے۔

 حکومت نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو تو کرپشن کے مقدمات میں اندر کرکے دونوں پارٹیوں سے ہوا نکال دی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مولانا سے کس طرح نمٹا جائے۔  ہمیں نہیں معلوم کہ طویل عرصے تک اقتدار کے ایوانوں میں رہنے والے مولانا فضل الرحمان یا ان کے ساتھیوں نے کرپشن کی ہے یا نہیں لیکن اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حکومت کے پاس مولانا کے خلاف کوئی مواد نہیں، اگر ذرہ برابر بھی ہوتا تو رانا ثناء کو چرس رکھنے کے الزام میں اندر کیا جاسکتا ہے مولانا جیسے کٹر حریف کو کیوں آزاد  چھوڑتے۔ پت جھڑ کا موسم  قریب آرہا  ہے اور مولانا کی تیاریوں میں بھی تیزی آرہی ہے یہ نہ صرف عمران خان کی  حکومت کا امتحان ہے بلکہ عمران خان کو لانے والوں کا بھی امتحان  ہے کہ جے یو آئی کے آزادی مارچ سے کس طرح نمٹتے ہیں۔




کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.