مگر مچھ کے آنسو

Crocodile tear - blog by Muhammad Asif

تحریر: محمدآصف

مگر مچھ کے آنسو، غلیظ ترین معاشرتی بیماری کہیں پڑھا تھا جہاں انسانوں کے سائے ان کے قد سے بڑھ جائیں جہاں قبائے دیں ابوجہل نے سجا لی ہو جہاں پر زبان کٹ جائے، جہاں ضمیر بک جائیں ،جھوٹ عام ہوجائےاورجھوٹے معزز ٹھہریں اور اسباب مفلساں کی طرح جہاں انصاف ایک انعام کی شکل اختیار کرلے، وہاں حق بات کہنا اور سچ سننا مشکل ہوتا ہے۔ 

ان تمام اخلاقی اور معاشرتی بیماریوں میں جھوٹ ایسی غلیظ بیماری ہے جو ہر برائی کی جڑ کہی جاتی ہے۔جھوٹ کے مختلف پہلو ہیں۔ 

ملاوٹ بھی جھوٹ ہے، چوری بھی جھوٹ ہے، بہتان بھی جھوٹ ہے۔ ہمارے یہاں یہ قبیح جرم اس قدرپھیل چکاہے کہ بعض صورتوں کوتوجھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا مثلاً جھوٹا میڈیکل سرٹیفکیٹ ،جھوٹ کی وکالت کرنا، جھوٹے سابقے ولاحقے لگانا، جھوٹی خبریں شائع یا نشرکرنا یا کروانا، جھوٹی ڈگریوں کی بنیاد پرمعاشرے میں تعارف کروانا وغیرہ کا آج کل بخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے ۔

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ لوگ دروغ گوئی کو عقل و دانش کی علامت سمجھنےلگے ہیں ۔ کذب بیانی سے دوسروں کو بے وقوف بنانے کا  تذکرہ اپنے لیے باعث افتخار گردانا جاتا ہے ۔

 کذب بیانی کی مختلف صورتیں ہیں۔ مجبوراً جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ضرورتاً جھوٹ بولا جاتا ہے اور عادتاً جھوٹا بولا جاتاہے۔ دروغ گو لوگ بڑے جہاندیدہ، گرم و سرد چشیدہ ، حاضر دماغ اور کسی حد تک بذلہ سنج تصور کیے جاتے  ہیں۔گویا ان کی بقا کا انحصار اور ذریعہ روزگار ہی جھوٹ اور مگر مچھ کے آنسو ہیں۔

بعض لوگ نقصان سے بچنے اور فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے جھوٹ بولتے ہیں اور بعض فائدے کے لیے سچ بولتے ہیں، جبکہ سچ تو حق ہے  اور سچائی کی خاطروقتی فائدے اور نقصان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے سچائی کی خاطر باکردار افراد بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

جھوٹ کی ہلاکت خیزی اور سنگینی اور جھوٹے کا شر اتنا زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹے پر لعنت کی ہے، لعنت اللہ علی الکاذبین (قرآن مجید)۔ مکر کرنے والوں اور جھوٹوں کے لئے سخت وعیدہے جبکہ ہماری اردو میں جھوٹوں اور فریب دینے والوں سے متعلق کئی محاورے اور کہاوتیں بھی ہیں ،جیسے مگر مچھ کے آنسو بہانہ وغیرہ۔ 

بدقسمتی سے معاشرتی رویوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے، کسی کو بھی کل کی فکر نہیں۔ ساری توجہ لمحہ موجود پر مرکوز ہے۔ہمیں اس بارے میں فکر کرنی چاہیئے۔ 

راست گوئی کو فروغ دینا چاہیئے اور یہ بات نہیں بُھولنی چاہئے بلکہ یقین رکھنا چاہییے کہ کل کلاں اگر معاشرے میں خوفِ خدا پیداہو جاتا ہے، جھوٹ سمیت ہر غلط بات نہ صرف غلط سمجھی جاتی ہے بلکہ کرنے والے سے نفرت برتی جاتی ہے، غلط کارکودُھتکار دیا جاتا ہے تو مگر مچھ کے آنسو بہا کر خلق خدا کو دھوکہ دینے والوں کے پاس شرپھیلانے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔حق بات کہنا اور سچ سننا مشکل نہیں رہے گا اور معاشرے میں بہتری آنے لگے گی۔  



اس تحریر کے مصنف محمدآصف، عامل صحافی ہیں۔ یہ مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔  ان سے رابطہ کرنے کے لئے ہمیں ای میل کیجئے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.