جب سکھ کا ساغر چھلکے گا، وہ صبح کبھی تو آئے گی
تحریر: اعجاز اکازئی
سٹی کورٹ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک ہوٹل میں بیٹھا سوچ رہاتھا کھانا کھایاجائے
یا چائے پی جائے؟ ایک دوست سے ملنے آیا تھا اسے آنے میں تاخیر
ہوگئی تھی۔ سوچا ناشتہ کئے بغیر گھر سے آگیاہوں۔ کچھ کھا لیا جائے لیکن وہ ہوٹل چائے
کا نہیں تھا۔ ہوٹل کے شیڈزحالیہ آپریشن میں گرادیئے گئےتھے۔ خالی ہوٹل دیکھ کر
میں بھی آکر بیٹھ گیاتھا، کچھ ہی توقف کےبعد ویٹر آیا پوچھنے لگا کیاکھائیں گے
صاحب؟ میں نے کہا تھوڑی دیر میں آنا۔
رش نہ ہونے کےباعث ویٹر بھی میرے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کچھ اداس لگ
رہاتھا۔ میں نے استفسار کیا بھائی کوئی مسئلہ ہے؟ کہنے لگاانتظامیہ نے ہوٹل کا
سامنے والا حصہ توڑ دیاہےجس سے ہوٹل کا کام متاثر ہواہے۔ اب مالک کہتا اگلے ماہ سے
ہوٹل کو ایک مہینے کیلئے بند کردوں گا۔
میں نےکہا یار اگر وہ ایک مہینے کیلئے ہوٹل بند کرے گا تو اس کا بھی نقصان ہے
شاید ایسا نہ کرے تو ویٹر نے کہا یہ بڑے لوگ ہیں ایک سال بھی ہوٹل بند کردیں تو
انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بس ہم لوگ جائیں گے۔ میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے یہاں
ایک کرایہ کا کمرہ لے رکھا ہے جس میں ہم چھ لوگ رہتے ہیں۔ میرا ایک بیٹا، تین
بیٹیاں، بیوی اور بوڑھے والدین گاؤں میں رہتے ہیں۔ سات سو روپے دیہاڑی ملتی ہے۔
ایک مہینہ فارغ رہ کر کیا کروں گا؟
میں نے اسے تسلی دی اللہ بڑا کارساز ہےایک در بند ہو تو سو کھل جاتے ہیں میری
اس بات پر وہ سادہ لوح شخص کھل اٹھا اور کہنے لگا بے شک۔
ہوٹل کے ملازم کوسمجھا کر مطمئن توکردیا، گھر بھی آگیا مگر وہی سوچتا رہا۔
ایک دوست یاد آگیا جس کا گزشتہ ہفتے مجھے فون آیاتھا کہ اس سمیت کئی لوگوں کواس
کے ادارے نے فارغ کردیا۔
ایسے میں گیارہ سال پہلے ایک تقریر کے دوران پڑھی گئی ایک نظم کے الفاظ
سماعتوں سے ٹکرانے لگے۔۔ جو سینئر سیاستدان اعتزاز احسن عدلیہ بحالی تحریک کے
دوران ہر جلسے میں دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر پڑھ رہے تھے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے، عدل بنا جمہور نہ ہوگا
ریاست ہوگی ماں کےجیسی،ہر شہری سے پیار کرے گی
ذہن پر 2007 کا سال چھا گیا جو سانحات سے بھرپور تھا۔ کیلنڈر بدل گیا ریاست
ماں کے جیسی نہ بن سکی۔ 2008 میں اعتزاز احسن کی اپنی پارٹی کی حکومت بن گئی۔ ان
کی اپنی حکومت نے کافی دنوں بعد عدلیہ کو تو بحال کردیا لیکن عوام کو امن ملا نہ
روزگار اور نہ ریاست ماں کے جیسی بن سکی۔
وقت کے ساتھ ریاست ہوگی ماں کے جیسی کانظریہ بھی دھندلاگیا۔ 2013 میں اقتدار
کا قرعہ مسلم لیگ ن کے نام کھلا۔ ملک میں امن کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی لیکن ریاست
ہوگی ماں کے جیسی کا نعرہ ذہن کے تاریک گوشوں میں چلاگیا۔
کروٹیں بدلتا وقت حکمرانوں کا ماضی سامنے لے آیا۔ پاناما کاکچھا چٹھا کھل
گیا۔ ایک نیا طوفان برپا ہوگیا۔ ایسے میں نیا پاکستان کا نعرہ لگا اور 25جولائی 2018 کو نیا پاکستان بھی بن گیا۔
نئے پاکستان کے نظریئے والوں نے لاکھوں گھروں اورایک کروڑ نوکریوں کے سہانے
خواب قوم کی آنکھوں میں سجائے لیکن 100 دن گزرنے کےبعد صحافی، ہنر مند، کاروباری
طبقہ، سرکاری ملازم سب ہی کو فکر معاش ہے۔ سوچتے ہیں۔
وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی
ان کالی صدیوں کے سر سے جب رات کا آنچل ڈھلکے گا
جب دکھ کے بادل پگھلیں گے، جب سکھ کا ساغر چھلکے گا
جب امبر جھوم کے ناچے گا، جب دھرتی نغمے گائے گی
مانا کہ ابھی تیرے میرے ارمانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
مٹی کا بھی ہے کچھ مول مگر انسانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں
انسانوں کی عزت جب جھوٹے سکوں میں نہ تولی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی، وہ صبح کبھی تو آئے گی
اس تحریر کے مصنف اعجاز اکازئی سینئر صحافی ہیں اور مختلف اخبارات، نیوز ایجنسی، نیوز ٹی وی چینلز سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ آج کل اعجاز اکازئی ایک ٹی وی نیوز چینل سے منسلک ہیں۔ ان سے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment