قبضہ مافیا تو اب بھی سرگرم ہے

Parking problems in Karachi

تحریر: کاشف فاروقی

مصطفٰی کمال سٹی ناظم بنے تو  انہوں نے سب سے پہلے شہر کے انفراسٹکچر کی بحالی کیلئے کام کا آغاز کیا،  اسی لئے ہر طرف کھدائی اور دھول مٹی کے باعث شہری تنگ ہوئے تو مصطفٰی کمال کو لوگ مصطفٰی کدال کے نام سے پکارنے لگے لیکن پھر کچھ عرصے میں ہی برق رفتاری سے کیے گئے  کاموں نے شہر کا نقشہ ہی بدل دیا۔

مصطفٰی کمال کیوں کام نہ کرتے، ان سے قبل بزرگ سٹی ناظم نعمت اللہ خان جو بنیاد رکھ گئے تھے۔ اب کام کرنا ایم کیو ایم کی سیاسی زندگی کیلئے بھی ضروری تھا اور وفاق کی جانب سے ملنے والی رقم کو اگر شہر پر نہ لگاتے تو کیا کرتے؟

یہ نعمت اللہ خان ہی تو تھے جن کو سابق صدر مشرف نے اس وقت کے وزیر اعلٰی ارباب رحیم اور گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی موجودگی میں اپنے ہمراہ گاڑی میں بٹھایا، شہر کا دورہ کیا، راشد منہاس روڈ کی تعمیر کا  رک کر معائنہ کیا اور تعریف بھی کی۔  اس سڑک کی تعمیر ایسی کی گئی کہ  آج تک اس کی مرمت کی ضرورت محسوس ہی نہ ہوئی البتہ مصطفٰی کمال کے دور میں اس سڑک پر بنائے گئے فلاوئی اوور کو مرمت کی اشد ضرورت ہے اور یہی حال یونیوررسٹی روڈ پر بنائے گئے دو فلائی اوورز کا بھی ہے۔

خیر ترقیاتی کام تو ماضی میں بھی کچھ اسی طرح کے ہوتے رہے ہیں لیکن مصطفٰی کمال کے دور میں جو سب سے خراب چیز متعارف کرائی گئی وہ تھی چائنا کٹنگ، یعنی سرکاری زمینوں، پارکوں اور رفاحی پلاٹوں کو قبضہ کرکے پلاٹنگ کی گئی اور مکانات تعمیرکیےگئے۔ دوہزار تیرہ  کے آپریشن کے آغاز پر تو چائنا کٹنگ کا بہت شور تھا مگر اب یہ شور نہ جانے کیوں خاموشی میں بدل چکا ہے۔

چند روز قبل عزیز آباد کے علاقے سے گزر ہوا تو اچانک نظر پڑی کی جہاں چند سال قبل تک دو سرسبز پارک ہوا کرتے تھے وہاں اب پارکنگ قائم ہوچکی ہے جن میں سے ایک معروف نجی اسپتال کی ہے اور دوسری ایک کمیونٹی نے قائم کی ہے۔ اسپتال کی پارکنگ کے بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ڈسڑکٹ میونسپل کاپوریشن وسطی نے اسپتال کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ پارک میں پارکنگ کرے مگر ایسا کیسے ممکن ہے؟

کچھ اور کھوج کرنے پر معلوم ہوا کہ کڑی شرائط پر پارک سپرد کیا گیا تھا، جس میں اولین شرط ہی یہ تھی کہ پارک کی حیثیت برقرار رہے گی اور اسپتال اس کی دیکھ بھال بھی کرے گا، عوام کو پارک میں داخلے سے نہ روکنا اور صرف ہنگامی حالت میں پارک کو بطور پارکنگ استعمال کرنا بھی شرائط میں شامل تھا جبکہ ان میں سے ایک ہی شرط کی خلاف ورزی پر اجازت منسوخ کردی جائےگی۔

مگر اجازت دینے کے بعد نہ کبھی کسی نے پلٹ کے دیکھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے؟  اور اسپتال انتظامیہ نے بھی پارک کو باپ کا مال سمجھ کر نہ صرف تباہ و برباد کردیا بلکہ باقاعدہ پارکنگ قائم کرکے گارڈز کھڑے کردیئے۔

یہ صرف ایک پارک کی بات نہیں شہر میں نہ جانے کہاں کہاں پارک اور کھیل کے میدان بااثر افراد اور اداروں کے قبضہ میں ہیں مگر ان سے کوئی پوچھنے والا کوئی ہے نہیں تو کارورائی کی توقع رکھنا  دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔ 



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.