غلام ابن غلام

INVESTIGATION & TRAINING WORKING GROUP 2nd & 3rd Sep. 2019 AT KARACHI

تحریر : شاہد انجم

دن بھر کی تکان کے بعد نہر کنارے گدھے پر سامان لادے کلو بھائی جب گھر پہنچے  تو  کانپتی زبان سے آواز دی اسلم کی ماں باہر آؤ اور میرے ساتھ سامان لے کر اندر چلو۔

 کلو بھائی پیشے کے لحاظ سے دھوبی تھے جو سورج کی پہلی کرن پھوٹنے کے بعد امیروں کے لباس کی میل نکالنے کے لئے گدھے پر گندے کپڑے لاد کر دور ندی پر جایا کرتے تھے۔

 آواز سننے کے بعد بڑی بی باہر آئیں اور سامان اٹھاتے ہوئے ان کی نظر گدھے کی گردن پر پڑی تو انہوں نےکہا کہ اسلم کے ابا کیا تم نے غور نہیں کیا کہ گدھے کہ گلے میں  رسی نہیں ہے جس سے تم اس کو باندھو گےاور اگر اسے نہیں باندھا تو رات کے اندھیرے میں یہ کہیں چلا جائے گا۔

یہ بات سن کر کلو بھائی پریشان ہو گئے اور اب وہ گدھے کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ تھکن سے چور کلو بھائی کافی دیر تک گدھے کے پاس موجود رہے اور اس سوچ میں تھے کہ اب کیسے رات گزرے گی ایسا تو نہیں کہ گدھے کی رکھوالی کے لئے مجھے رات بھر جاگنا پڑے کہ اچانک ان کے دوست شفیق کا وہاں سے گز ر ہوا۔

اس نے کلو بھائی کو پریشان دیکھ کر پوچھا کلو بھائی کیا معاملہ ہے اتنی دیر تک گھر کے باہر کیوں بیٹھے ہو جس پر کلو بھائی نے جواب دیا کہ میرے گدھے کی رسی کہیں گم ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ میں سویا تو گدھا کہیں بھاگ نہ جائے جس پر شفیق نے کہا کہ کلو بھائی آپ پریشان نہ ہوں اس کا علاج میرے پاس موجود ہے۔ کلو بھائی بولے جلدی بتاؤ میں پریشان ہو گیا ہوں شفیق، تم اس گدھے کو اسی جگہ لے چلو جہاں اسے گلے میں رسی ڈال کر کھونٹے سے باندھتے ہیں، وہاں اس کو باندھنے کی مشق کرو تاکہ میں جاکر سو جاؤں۔مجھے امید ہے کہ گدھا کہیں نہیں جائے گا۔

کلو بھائی نے ایسا ہی کیا اور گھر جا کر سو گئے۔ صبح جب کلو بھائی دوبارہ جانے لگے اور گدھے کو  ہانکنا شروع کیا تو گدھا اپنی جگہ سے نہیں ہلا، کافی دیر تک کلو بھائی گدھے کو ہانکتے رہے اور اس کے ٹس سے مس نہ ہونے پر پریشان ہوگئے جس کے بعد ان کو یاد آیا کہ میں شفیق سے دوبارہ پوچھتا ہوں کہ اس کا علاج کیا ہے۔

کلو بھائی ہانپتے کامپتے شفیق کے ڈیرے پر پہنچے اور کہا کہ بھائی گدھا تو اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں رہا میں کیا کروں جس پر شفیق نے کہا کہ کیا آپ نے گدھے کی رسی کھولی ہے؟

کلو بھائی نے کہا کہ میں نے باندھا ہی کب تھا کہ اسے کھولوں شفیق نے کہا کلو بھائی آپ نے گدھے کو باندھنے کی مشق کی تھی تو اب کھولنے کی بھی مشق کریں تاکہ گدھے کو یہ پتہ چل جائے کہ مالک نے مجھے کھول دیا ہے۔ کلو بھائی سوچ میں پڑ گئے اور انہوں نےکہا کہ شفیق مجھے صرف اس سوال کا جواب دے دو کہ اس کھیل میں حقیقت کیا ہے جس پر شفیق نے زور دار قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ گدھا ایک غلامی کی زندگی گزار رہا ہے اور وہ کبھی اس غلامی سے باہر نہیں آسکتا۔

دھوبی اور اس کے گدھے کی یہ کہانی سن کر مجھے ایک مقامی ہوٹل میں پولیس کی طرف سے انعقاد کی گئی دو روزہ ورکشاپ یاد آگئی ورکشاپ میں پولیس کے اعلی افسران کئی کئی گھنٹے تک مقدمات کی تحقیقات کرنے کے طریقے بتاتے رہے۔ اعلٰی افسران ایک دوسرے سے سوالات بھی کرتے رہے اور ان سے جواب بھی لیتے رہے۔

اس سلسلے میں کراچی اور سندھ بھر سے شعبہ تفتیش سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور جونیئر افسران کو بھی مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ تفتیش کی باریک بینیوں سے واقف ہوسکیں کس طرح سے مقدمات کی چھان بین کرنی چاہیے کوئی بھی بڑا دہشت گردی کا واقعہ یا حادثہ ہونے کی صورت میں شعبہ تفتیش کو کس طرح اسکی گہرائی تک جانا چاہیے۔ اچھا کھانا بھی تناول کیا گیا۔ شہر بھر کے شعبہ ذرائع ابلاغ کو بھی دعوت دی گئی تاکہ وہ اس ورکشاپ کے مقاصد کو عام عوام تک پہنچائیں۔

ورکشاپ کی پہلی نشست پر چند افراد ایسے بھی موجود تھے جو شکل و صورت سے غیر ملکی معلوم ہوتے تھے ہر سوال اور اس کا جواب ان کی طرف دیکھ کر ہی شروع ہوتا تھا اور اس کا اختتام بھی ان کی طرف دیکھ کر کیا جاتا تھا۔ دو روزہ ورکشاپ دیکھ کر مجھے بے حد افسوس ہوا کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ پڑھے لکھے لوگ آج بھی فرنگیوں کے غلام ہیں اس لئے تقریباً سولہ گھنٹے جاری رہنے والی ورکشاپ میں نہ تو کوئی سوال قومی زبان میں کیا گیا اور نہ ہی کوئی جواب قومی زبان میں ملا اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے ورکشاپ کے کتنے فیصد مقاصد اپنے تحقیقاتی افسران تک پہنچائے؟ اور وہ کہاں تک سمجھ پائے؟ اس ورکشاپ کے توسط سے ایک رات کے کھانے کا ایک انتظام بھی کیا گیا تھا جس میں فلم اسٹار مدعو کئے گئے تھے جو کئی گھنٹے تک اعلی افسران سے خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ ذرا سوچیئے!





اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.