دل کو ٹھیس تب پہنچی جب ایک پاکستانی روپیہ بھارتی اٹھنی برابر ہو گیا


Pakistan rupee continues to devalue, now it becomes double of Indian rupee

 تحریر: رباب رضا 

ہائے  ایسی بے قدری! کسی بھی ملک کی ثقافت،اس کا جھنڈا اوراس کی کرنسی ایک خاص قسم کی سینس آف پرائڈ دیتی ہے کہ کبھی اس پر نہ آنچ آئے ورنہ  عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

ایسا ہی کچھ احساسات ہیں روپے کی بے قدری پر۔  روپے کی قدر عالمی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے  ڈالر سے  منسلک ہے۔ عالمی اور ملکی معاشی صورت حال کے اعتبار سے  اس میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آتا۔ مگر روپےکے معاملے میں یہ یکطرفہ ٹرینڈ کافی عرصے سے جاری ہے۔

خیر، رویپہ کبھی مضبوط بھی ہوا کرتا تھا۔ نانا بڑے فخر سے بتاتے تھےکہ جب ہم انیس سو باسٹھ میں امریکہ ٹریننگ پر گئے تھے تو  اس وقت ایک روپے کا ایک ڈالر ہوا کرتا تھا  اب ڈالر چوالیس روپے کا ہوگیا ہے۔ نانا کا انتقال ستانوے میں ہوگیاتھا۔ اگر ابھی حیات ہوتے توغم سے مزید نڈھال ہو جاتے۔

ڈالر چوالیس روپے سے چلتے چلتے ایک سو چوبیس روپے تک جاپہنچا ہے اور ڈالر کے مزید مہنگے ہونے کی بازگشت زبان زد عام ہے۔بات یہیں تک رہتی تو بھی کسی طور قبول تھی لیکن دل کو ٹھیس تب پہنچی جب ایک پاکستانی روپیہ بھارتی اٹھنی برابر ہو گیا مگر مجال ہے جو حکومت کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔

گزشتہ جون سے اب تک چار بار روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے  اور ٹھیک ٹھاک کمی ہوئی ہے۔ حالیہ گراوٹ میں ڈالر کی قدر میں تقریبا ساڑھے چھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔  پاکستانی ماہرین ہوں یا غیر ملکی مالیاتی ادارے،  روپے کی قدر میں مزید کمی کی نشاندہی کر رہیں ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر روپے کی قدر میں کمی کی وجہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے روپے کی قدر کا تعین ملکی معاشی اشاریوں کو  مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ ان میں اہم ترین عوامل جاری کھاتوں کاخسارہ، درآمدات اور برآمدات کے درمیان فرق اور ملک کے پاس  زرمبادلہ ذخائر شامل ہیں، اور اگر یہ عوامل ہیں تو پھر روپے کی بے قدری کچھ غلط نہیں۔

درآمدات میں بے پناہ  اضافہ ہورہا ہے۔اضافہ اتنا  کہ برآمدات میں گزشتہ چند ماہ سے جاری بہتری کے تمام اثرات زائل ہوگئے ہیں۔ تجارتی خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے زرمبادلہ ذخائر کی صورت حال غالب کے اس شعر کی عکاس ہے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ  لاوے  گی ہماری  فاقہ مستی  ایک  دن

یہی کچھ صورتحال ہے زرمبادلہ ذخائر کی۔ کبھی کسی سے قرض لیا کبھی کسی نے دوست بن کر تحفے میں ایک ڈیڑھ ارب ڈالر دے دئیے۔ اور پھر کیا ہوا، جب تمام ذرائع اگزاسٹ ہوگئے اور قرضےاور دیگر ادائیگیاں سر پر آ گئیں تو زمبادلہ ذخائر کم ہوتے چلے گئے۔ اب کمی کا یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

اسٹیٹ بینک کے ذخائرکا حجم دو ماہ کے درآمدی بل کے برابر رہ گیاہے۔ آئندہ مالی سال میں آٹھ ارب ڈالر سے زائد کے قرضے واپس کرنے ہیں۔ مجموعی قرضوں کا حجم اکیانوے ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ جاری کھاتوں کا خسارہ بھی ایک بھیانک منظر پیش کررہا ہے۔

ڈالر کی قدر میں اضافے کے مثبت اور منفی دونوں اثرات ہیں۔ البتہ مثبت اثرات نظر  آنے میں وقت لگتا ہے جبکہ منفی اثرات فوراً  ظاہر ہوجاتے ہیں۔ منفی اثرات میں مہنگائی میں اضافہ سرفہرست ہے  اور پاکستان جیسےدرآمدی ملک میں یہ ایک بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔

روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کرتی ہے مگر اس کیلئے مناسب پالیسی سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماہر ین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا  کہ پاکستان پانچ سال میں دو بار آئی ایم ایف کا در کھٹ کھٹائے  گا ۔

اس تحریر کی مصنفہ رباب رضا، عامل صحافی ہیں اور مختلف نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان سے ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔@rababkashif

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. ہائے ایسی بے قدری! کسی بھی ملک کی ثقافت،اس کا جھنڈا اوراس کی کرنسی ایک خاص قسم کی سینس آف پرائڈ دیتی ہے کہ کبھی اس پر نہ آنچ آئے ورنہ عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
    haier

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.