مرتا کیا نہ کرتا


تحریر: وارث خان

تیرہ  جنوری کو کراچی کے سول اسپتال میں چوکیدار اور ڈرائیور کی 3سو اسامیوں کےلیے 15 ہزار سے زائد افراد پہنچ گئے۔ یہ بےروزگار رات سے  ہی  سول  اسپتال  کے او پی  ڈی  گیٹ کے  سامنے  ڈیرے  لگا کر  بیٹھ گئے  تھے جہاں  صبح دستاویزات  کی  تصدیق  کے  بعد  انٹرویو کی  پرچی  ملنی  تھی۔

ہزاروں  امیدوں کےساتھ  آنے  والے  امیدواروں  نے  گیٹ  کھلتے  ہی  گھسنے  کی کوشش تاہم  بڑی تعداد  ہونے  کے  باعث دھکم  پیل ہوئی  اور  پولیس نے  ان بے روزگاروں  پر خوب لاٹھیاں برسائیں ۔گریڈ ایک سے  پانچ  تک  کی اسامیوں کے لیے پورے سندھ سے گریجویٹ  اور ماسٹر ڈگری  کے  حامل سیکڑوں نوجوان بھی موجودتھے۔

اپنی زندگی کے18سے 20سال تعلیم حاصل کرنے  کے  بعد یہ  بے روزگار  نوجوان  چوکیدار اور ڈرائیور  بننے کےلیےبھی  تیار تھے  اور  ڈنڈے کھانے کو بھی راضی۔ نوکری ملے نہ  ملے  ہر امیدوار کے  تقریباً  ایک  ہزار روپے  ضرور  خرچ ہوئے۔جس میں اسناد  کی  فوٹو کاپی، درخواست، دوتصاویر، کرایہ، متعلقہ تھانے  سے کریکٹر سرٹیفکٹ  اور گریڈ 17کے آفیسرسے تصدیق کی مشقت شامل تھی۔

اسپتال  انتظامیہ اگر چاہتی  تو   کچھ  انتظامات  کرکے اس صورتحال  سے بہتر انداز میں  نمٹاجاسکتاتھا۔ اضلاع کے لحاظ  سے کاؤنٹر بنائے جاسکتے تھے یا پھر پہلے  روز صرف  درخواستیں وصول کی  جاتیں اس  کے بعد  انٹرویو  کےلیے لسٹ لگائی  جاتی یا امیدواروں  کے موبائل نمبرز  پر ایس ایم ایس  بھی بھیجے جاسکتےتھے لیکن اگر یہ سارے معاملات اتنی خوش اسلوبی سے ہوجاتے تو  کیا  ہی  اچھا  ہوتا۔

 نوجوان قوم  کا  اثاثہ  ہوتے  ہیں خدارا  اس  اثاثے  کی حفاظت کریں  نا کہ  انہیں نوکری کے  نام  پر  انہیں بے  توقیر کیاجائے  اور ان کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے۔حکومت وقت سے درخواست ہے کہ  ملازمت میرٹ پر دی  جائے  اگر سیاسی  وابستگی  اور  اقربا  پروری  کی  بنیاد پر  ہی معاملات طے کرنے ہیں تو  پھر  خاموشی سے  اپنوں کو  نوازا  جائے  حجت تمام کرنے کی ضرورت  ہی  کیا  ہے؟  اس سے  بے روزگار نوجوانوں کی  توقعات کو  دھچکا لگے گا   نہ  ہی  ان  کو بے جا  اخراجات کرنے  پڑیں گے۔



اس تحریر کے مصنف وارث خان ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ وارث خان مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.