کیا قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہے؟ سات سوال قانونی، ایک سوال عوامی

Justice Qazi Faez Isa raises seven questions in his note in Shaikh Rasheed case verdict

تحریر: محمدآصف

نواز شریف ہو یا  کوئی اور جس نے ملک لوٹا اس کا کڑا احتساب ہونا چاہیئے۔ احتساب نواز شریف سے  شروع ہوا ہے تو یہ اچھی بات ہے ۔کسی ایک طاقت ورشخص  کی پکڑ سے احتساب شروع تو ہوا۔  ہمارے  ملک میں طاقت ور کا احتساب ہوتا کہاں ہے۔  سارے قانون  غریبوں کے لئے  ہیں۔  یہ ہیں وہ  جملے جو زبان زد عام ہیں۔

 نواز شریف  اور ان کے بچوں  کے  خلاف پاناما فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان اور خواجہ آصف  کی اہلی اور جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ بھی دیا۔ ان فیصلوں کے بعد  کئی ایک   قانونی نکات پر ابہام  بڑھ گیا۔

تیرہ جون دوہزار اٹھارہ کو سپریم کورٹ کے تین رکنی  بینچ نےدو ایک کے تناسب سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی پارلیمنٹ کی  رکنیت کے لئے اہلیت  سے متعلق   فیصلہ سنایا  جس  میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ لکھا اور ایسے ہی قانونی نکات پر ابہام کا ذکر کر کے  ان  کے حل  کی  جانب توجہ دلائی۔ 

فاضل جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے  اپنے ریمارکس کے ساتھ سات سوال اٹھائے اورمحترم  چیف  جسٹس آف پاکستان  جسٹس ثاقب نثار سے ان کے مدلل جوابات  کے لئےفل کورٹ تشکیل دینے  کی سفارش کی ہے۔

سپریم کورٹ  کےمعزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  اختلافی نوٹ میں لکھا  کہ نوازشریف کی طرح سخت  حساب دہی اصول کا اطلاق شیخ رشید اور عمران خان پر نہیں ہوا، مختلف النوع فیصلوں سے قانونی بے یقینی پیدا ہوگی۔ اگرسخت حساب دہی کے اصول کا اطلاق ہوتا تو شیخ رشید کو بھی اسی طرح نااہل کیا جاتا جس طرح نواز شریف کو بطور وزیر اعظم نااہل کیا گیا تھا۔

جسٹس  فائز عیسی  کے ریمارکس  اور سوالات  کے بعد  یہ  قانونی بحث مزید تیز ہوگئی کہ  کیا قانون  کا اطلاق   سب کے لئے ایک جیسا ہے؟ پاکستان  میں نظام انصاف پر ایک ہزار سوال اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن  یہ سوال کہ کیا قانون کا اطلاق  سب کے لئے یکساں ہے تو اس کا جواب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سوالات میں  چھپا ہے۔

سینئر قانون دان  سپریم کورٹ  بار ایسوسی ایشن  کے سابق صدرعلی احمد کرد  کا کہنا ہے  سات سوالات پر ایک فل کورٹ بینچ تشکیل دینا پڑے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  جو ملکی تاریخ کے کئی  اہم مقدمات  کے  فیصلے سنا چکے  ہیں، نے شیخ رشید کیس  کے فیصلے میں اختلافی نوٹ میں  مزید لکھا  کہ اس مقدمہ میں بہت سے ایسے نکات ہیں جن کا عدالتی جائزہ لیا جانا ضروری ہے، ان  کی جانب سے انتہائی پرمغز  سات سوالات اٹھائے گئے جو درج ذیل ہیں۔

سوال: کیا کاغذات نامزدگی میں ہرغلط بیانی کا نتیجہ عوامی عہدہ کیلئے نا اہلیت ہے؟
سوال:غلط بیانی پر نااہلی کی مدت تاحیات ہوگی یا آئندہ انتخابات تک ہوگی؟ (حالانکہ تیرہ اپریل دوہزار اٹھار  کو چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے  آرٹیکل باسٹھ ون ایف  کی تشریح  کرتے  ہوئے تاریخ ساز فیصلے میں  نااہلی کی مدت  تاحیات ہونے کا تعین کردیا ہے۔)
سوال :کیا عدالتی کارروائی کے دوران  ظاہر ہونے والی غلط بیانی  کو عوامی نمائندے کی نااہلی کے لئے زیر غور لایا جاسکتا ہے؟
سوال: کیا آئین کے حلف اور آرٹیکل 225 سے متعلق انتخابی تنازعات میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کا اطلاق ہوسکتا ہے؟
سوال:کیا آرٹیکل 184/3 کے مقدمہ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی رکن پارلیمنٹ کو نا اہل کیا جا سکتا ہے؟
سوال:کیاآرٹیکل 62 ون ایف میں کورٹ آف لا ء کے ذکر میں سپریم کورٹ بھی شامل ہے؟
سوال:کیا کسی شخص کی انتخابی عذرداری کو عوامی مفاد کا معاملہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
سوال:اگر عوامی مفاد کا معاملہ ہو تو کیا شواہد کی فراہمی سےمتعلق قوانین کا اطلاق ہوگا؟
 ان سوالوں  کا جواب  تو  فل کورٹ بینچ ہی  دے گا۔   چلتے چلتے ایک  بڑا سوال  یہ بھی  نوٹ کرتے چلیں  کہ اگر الیکشن کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے تو پھر انہیں وزیر اعظم کیسے بنایا جائے؟

اس کا جواب حاضر ہے:

آپ نے سیاسی مباحثوں میں آئین کے آرٹیکل 184/3 کے بارے میں تو سنا ہو گا۔  اس آرٹیکل کے بارے میں قانونی ماہرین کی رائے بھی ضرور سنی ہو گی کہ آئین کے آرٹیکل  184/3کے تحت عدالت عظمیٰ کوئی بھی آرڈر پاس کر سکتی ہے۔ قانونی ماہرین کے بقول کوئی بھی ایسا معاملہ جو قومی اہمیت اور بنیادی حقوق کے متعلق ہو، اس پر عدالت عظمیٰ آرٹیکل 184/3کے تحت کارروائی کر سکتی ہے۔

کرپشن اس ملک کا قومی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ قومی اہمیت کا حامل ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ہر شہری کا  بنیادی حق ہے اوریہ اب تک بظاہر یا عمومی قیاس کے تحت ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ صرف عمران خان کر سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ اگر چاہے تو آرٹیکل184/3کے تحت آرڈر جاری کر سکتی ہے کہ ملک میں فوراً ریفرنڈم کرایا جائے جس میں صرف ایک سوال ہو کہ کیا آپ ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو عمران خان پانچ سال کے لئے ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گے۔


اس تحریر کے مصنف محمدآصف، عامل صحافی ہیں۔ یہ مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔  ان سے رابطہ کرنے کے لئے ہمیں ای میل کیجئے khabarkahani@gmail.com


مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.