لیاری سے لاہور (قسط نمبر۱)


تحریر:امجد بلیدی

بچپن میں جب ہوش کی آنکھ کھولی تو خود کو لکڑیوں اور مقبروں کے درمیان پایا کیوں کہ جہاں ہماری رہائش تھی اس کے پیچھے کراچی کی ٹمبر مارکیٹ اور محلہ قبرستان کے اندر واقع تھا۔ محلے سے کچھ ہی فاصلے پر لی مارکیٹ اور دوسری طرف مالیار، اسماعیلی قبرستان اورساتھ ہی حسینی باغ جو اہل تشیع کا قبرستان ہے  اور  اسی قطار میں چاکیواڑہ کی عید گاہ مسجد اور جنازہ گاہ ہے جہاں نہ جانے کتنے جنازوں اور عیدین کی نمازوں میں بھی شرکت کرچکا ہوں ۔

 

یوں تو لیاری کا رقبہ بہت وسیع ہے لیکن جہاں ہم رہتے تھے اصل لیاری کی شروعات تووہیں سے ہوجاتی تھی یہ علاقہ  پھرپرویز مشرف دور حکومت میں الگ کرکے صدر ٹاؤن میں ضم کردیاگیا اور کراچی میں ضلع بندی کے بعد اسے کراچی جنوبی میں شامل کردیا گیا۔  آپ سوچ رہے ہوں گے میں اچانک لیاری کی باتیں پھر سے کیوں کرنے لگا ہوں تو جناب اس کی وجہ یہ ہے کہ اداروں کے اندراوقات کار میں تقرری اور تبادلوں کے بعد اب ایسا تبادلہ ہوا ہے کہ ہمیں علاقہ ہی نہیں شہر بھی چھوڑنا پڑرہا ہے بقول شہپر رسول صاحب کہ

مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کردیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

لاہور سے یوں تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا سوائے چند ایک دوستوں کے جو سابقہ ادارے کے توسط سے ملے اور جن سے عزت و احترام کا خاص رشتہ ہے لیکن جب ادارے کی جانب سے لاہور تبادلے کی بات چلی تو یقین مانیں کراچی سے دوری کا سوچ سوچ کر تین دن تک نیند سے ہماری گھمسان کی لڑائی ہوئی اور پھر چوتھے روزبالآخر ہماری آنکھوں نے اسے فتح کرکے دم لیا۔

 

 لاہور سے متعلق جتنی باتیں سننے اور دیکھنے کو ملی ہیں ان میں کچھ چیزیں مجھے میرے لیاری سے مشترک لگیں اس لیے سوچا کیوں نہ اپنے ان خیالات کو قلمبند کرلوں لیکن ہاں ایک بات یہاں یہ ضرور بتادوں کہ لیاری میں مینار پاکستا ن کی طرح کوئی مینار تو نہیں لیکن یہاں آٹھ چوک ضرورہے جسے اب بھٹو فیملی کی تصویریں لگاکر بھٹو چوک بنادیا گیاہے اوراسی طرح لیاری کی اہم نشانیوں میں ایک چیل چوک بھی ہے اور اس چوک پر لگے چیل کے”پَر“ لیاری آپریشن کے بعد ٹیڑھے ہوچکے ہیں۔

 

ابھی ہماری لاہور روانگی نہیں ہوئی یہ ادارے کی صوابدید پر ہے اور ہمارے نصیب پرکہ آگے کیا ہونا ہے لیکن اب تک کی جوصورتحال بن رہی ہے اس میں بظاہر ہمارا لاہور جانا ٹھہرگیا ہے۔

سفر بھی دور کا ہے اور کہیں نہیں جانا

اب ابتداء اسے کہیے کہ انتہا کہیے

 لاہور پہنچنے سے پہلے میں لیاری سے وابستہ کچھ اپنی یادیں لفظوں کی صورت ان دوستوں میں بانٹناچاہتا ہوں جن کی نظر میں لیاری ایک پسماندہ علاقہ یا اب بھی کوئی نوگوایریا ہے۔

 

چلیں شروعات کرتے ہیں اپنے بچپن کی کچھ دھندلی یادوں سے جب پہلی بار اپنی سڑک پر(جس کا نام اچاریہ گڈوانی روڈتھا) فوجی ٹرک دیکھے اور فقیر محمد دراخان روڈ کی گولائی(اب جو کشتی چوک کہلاتی ہے)پر رکاوٹوں اور خار دارتاروں سے راستے بند کیے گئے تھے یہ معاملہ کیا تھا ہمیں یہ تو معلوم نہ تھا لیکن بڑے بوڑھے اسے کرفیو کرفیو کہہ کر باتیں کرتے تھے اور محلے کے گیٹ کے پاس کھڑے بچے اورخواتین کسی کو لاٹھیاں پڑتے یا سائیکل کندھوں پر اٹھاکر سزائیں ملتے لوگوں کو دیکھ کرلطف اندوز ہوتے تھیں۔  کچھ عرصے بعد اچانک ایک اور واقعہ رونما ہوا جب یہ کہہ کر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں کہ ضیا الحق کے طیارے کو حادثہ پیش آیا ہے اپنے علاقے میں اتنی خوشی شاید ہی میں نے اب تک دیکھی ہو جو اس وقت دیکھنے کو ملی تھی یہ اِن ہی دنوں کی بات ہے جب میں نے پہلی بار”لیوا“کا نام سنا تھا۔  محلے کی مسجد کے بالکل سامنے ایک رہائشی چال(رہائشی کمپاؤنڈ)تھی جیسے انڈین فلموں میں ہم دیکھتے آئے ہیں اس چال کوہم بلوچی میں (ڈیلہ)بھی کہتے تھے جس سے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ کبھی سکھوں اور ہندوؤں کا محلہ ہوا کرتاتھا اندر سے اس میں  عجیب طرح کے کوارٹرزبنے ہوئے تھے جن میں بلوچوں کے ساتھ ساتھ پٹنی،کچھی اورچند ایک اردو اسپیکنگ خاندان آباد تھے اس میں بنے مکانات میں واش روم نہ تھے بلکہ وہ توان سے بالکل الگ تھلگ ایک فاصلے پرتھے، جہاں صبح صبح لوگ لوٹے لیکر کھڑے نظر آتے۔  اس کمپاؤنڈ کو دیکھ کرہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ انگریز وں کے دور کی بنی ہوئی ہے۔

(جاری ہے۔۔۔۔) غنی ماما کے قاعدے قوانین، حمزہ بنگالی کی پان شاپ،  لکڑ منڈی کی خاص بات  اور بہت کچھ اگلی قسط میں ۔۔

اس تحریر کے مصنف امجد بلیدی منجھے ہوئے صحافی ہیں جن کے کئی اخبارات و جرائد میں کالم اور بلاگ شایع ہوتے ہیں۔ وہ ایک ٹی وی چینل سے منسلک ہیں جہاں وہ صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے  رہے ہیں۔ مندرجہ بالا تحریر  ان کی اپنی کہانی ہے جو  خبرکہانی پر قسط وار شائع ہوتی رہے گی۔ امجد بلیدی سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 

 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.