کراچی اور سوات میں فرق

  

تحریر: خیراللہ عزیز

 سوات میں گیارہ اکتوبر کو عوام نے عظیم الشان احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مینگورہ کے نشاط چوک اور اطراف کی سڑکوں پر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، یہ احتجاج کس کے خلاف  اورکس کے لیے تھا اس کے لیے تھوڑا سا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ مینگورہ بائی پاس پر دو افراد کو مارا جاتاہے، اگلے دن مقامی اخبارات اورسوشل میڈیا پر یہ خبر عام تھی کہ فورسز نے دو عسکریت پسندوں کو مقابلے کے بعد ہلاک کردیا۔  لیکن ہمارے جید صحافی دوست نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ٹھان لی۔  فیاض ظفر نے جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری تھے اور مینگورہ میں ان کا کاروبار تھا۔

 

  فیاض ظفر کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق  شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص کےبیٹے کا پنجاب کے رہائشی  اور ایک افغان شہری سے پیسوں کی لین دین کا تنازع تھا جس پر ایک جرگہ بھی ہوچکا تھا اور معاملہ حل ہونے کےقریب تھا۔  سات روز قبل ’’نامعلوم نقاب پوشوں‘‘ نے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان انیس کو اغوا کرلیا ، ہفتے کو یہ لوگ انیس کو لیکر ان کے والد کانٹے پر گئے ، ان کے باپ سے رقم کا مطالبہ کیا ، گالم گلوچ کے دوران انیس کاباپ طیش میں آگیا اور فائرنگ کردی جس سے کئی افراد زخمی ہوئے جن کی شناخت بعد میں پاک فوج کے کیپٹن ، نائیک، لانس نائیک اور ایک سپاہی کی حیثیت سے ہوئی۔   انہوں نے مزید نفری منگوائی، گاڑی سے مغوی انیس کو نکالا اور دونوں باپ بیٹے کو بے رحمی سے قتل کردیا۔  فیاض ظفر کی اس خبر سے ہلچل مچ گئی لوگوں میں شدید غم و غصہ تھا اور پھر ایک غیرسیاسی تنظیم کی کال پر لوگوں نے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی  سرپرستی کرنے والوں کے خلاف تاریخی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے سے کئی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ یہ مظاہرہ دراصل ریاست کی پالیسیوں کے خلاف تھا۔  مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے نہ بھارت سے ، پھر دہشت گرد کہاں سے آتے ہیں، وہ سوات کو ایک بار پھر تجربہ گاہ نہیں بننے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوات کو بھی وہ حق دیاجائے جو لاہور اور پنڈی کو حاصل ہے۔  

 

سوات کے لوگوں نے تو پیغام دے دیا لیکن اس مظاہرے میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے باسیوں کے لیے بھی ایک پیغام تھا۔  وہ پیغام جاننے سے پہلے ذرا کراچی کے مسائل پر بھی نظر دوڑائیں ۔  اس شہر پر ایک مافیا مسلط ہے، سرکاری سرپرستی میں زمینوں پر قبضے کیے جاتے ہیں، سرکاری سرپرستی میں شہریوں کا پانی فروخت ہوتا ہے، سرکاری سرپرستی میں تاجروں سے بھتے لیے جاتے ہیں، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک جیسی بدنام زمانہ نجی  کمپنی شہریوں کا خون نچوڑ رہی ہے، رینجرز اور پولیس کی موجودگی میں شہریوں کی جان محفوظ ہے نہ مال، دن دہاڑے نوجوان قتل کیے جاتے ہیں، بچے یتیم ہوتے ہیں اور نوبیاہتا خواتین بیوہ بن جاتی ہیں۔  عروس البلاد پر مسلط اشرافیہ یہاں سے پیسہ بناتی ہے لیکن اس شہر کو حقوق نہیں دیے جاتےہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے، تعلیمی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے تو اسپتالوإں کا بھی کوئی حال نہیں لیکن ملک کے اصل مالکان  اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔  اتنی بے رحمی کے باوجود اس شہر کے لوگ گونگے اور بے حس ہوچکے ہیں، سوشل میڈیا پر چیختے ہیں گھروں میں لڑائی کرتے ہیں لیکن اپنا حق لینے کے لیے نہیں نکلتے۔ چند لاکھ کی آبادی والے سوات میں ایک غیرسیاسی تنظیم کی کال پرہزاروں  لوگ اپنے حق کے لیے گھروں سے نکل آتے ہیں لیکن ڈھائی کروڑ آبادی کے اس شہر میں چند ہزار بھی نکلنے کو تیار نہیں، سوات کے لوگوں کا کراچی والوں کے لیے پیغام ہے کہ حق مانگنے سے نہیں چھیننے سے ملتا ہے، آپ کو بھی کچھ کرنا پڑے گا ورنہ مسلط ٹولے کی من مانی جاری رہے گی۔  

   

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.