مظلوموں کی دادرسی سے کوئی بغاوت ہو نہ انتشار پھوٹے

Sahiwal incident needs justice

تحریر: عبید شاہ

حضرت عمر رضی اللہ کا دور خلافت ہے، یمن کے مرکزی شہر صنعاء سے خبر ملتی ہے کہ ایک نوجوان قتل ہو گیا لیکن اس کے ذمہ دار کیفر کردار تک نہیں پہنچائے جا سکے۔

کچھ دن بعد ورثاء حاضرِ خدمت ہوتے ہیں، امیر المومنین فرمان لکھواتے ہیں کہ اتنے دن میں قصاص کی خبر مجھ تک پہنچنی چاہیے۔ تاریخ گزر جاتی ہے ، پھر ایلچی وہی جواب لاتا ہے کہ تاخیر ہے، اب کی بار گورنر کا خط بھی ملتا ہے جس میں کچھ اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں کہ قاتل اکیلا نہیں ہے اور اس واقعہ کے پیچھے ایک با اثر خاندان کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے۔ اگر ان کے خلاف کاروائی کی گئی تو اہل یمن کے بپھر جانے کا خدشہ ہے، سیاسی انتشار متوقع ہے۔ 

امیر المؤمنین نے جواب لکھواتے ہیں :
لَوْ تَمَالَأَ عَلَيْهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ جَمِيعًا.
اگر تمام اہل صنعاء اس قتلِ ناحق کے ذمہ دار ہوں تو میں قصاص میں سارے شہر کو قتل کروا دوں گا!(مؤطا امام مالک بروایت سعید بن مسیب)

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ صنعاء کی جامع مسجد کے سامنے ایک جان کے قصاص میں سات افراد کو قتل کیا گیا جنہوں نے نوجوان کو فریب دے کرقتل کر دیا تھا، کوئی بغاوت اٹھی نہ انتشار برپا ہوا کیونکہ رب کا فرمان ہے

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿آل عمران: ١٧٩﴾
عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔

2019کی اس ریاست مدینہ کے شہر ساہیوال میں بھی دو خاندان کا خون ناحق بہتا ہے ماں باپ کو بچوں کے سامنے قتل کیا جاتا ہے تو ذیشان نامی شخص کو قتل کیئے جانے کے بعد انتہائی مطلوب دہشت گرد کا لبادہ اڑھانے کی کوشش جاری ہے۔

سانحہ صفورا  کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہم نے کئی مطلوب و مبینہ دہشت گردوں کی گرفتاری دیکھی لیکن ان میں سے متعدد پر جرم ثابت نہ ہوا تو اداروں نے اپنی جھینپ مٹاتے ہوئے انہیں  فورتھ شیڈول کی کٹیگری میں ڈال دیا۔ 

مجھے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت پر پورا بھروسہ ہےکہ وہ دن رات کی کاوش سے ذیشان تو کیا خلیل اور اس کی فیملی کو بھی دہشت گرد ثابت کردیں گے ایسے میں اگر پھر بھی کوئی میں نہ مانوں کی گردان کرے تو  اسے سہولت کاری کے دائرے میں لاکر باآسانی ذلیل کیاجاسکتا ہے۔

گورنر یمن کو خدشہ تھا کہ با اثر افراد پر ہاتھ ڈالنے سے سیاسی انتشار پھیل سکتا ہے اور ہمیں ہر دور میں یہ خدشہ رہا ہے کہ ایسی حرکات پر اداروں کی سرزنش سے ملکی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان انتشار و وقار کی خاطر راؤ  انوار کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا تو راؤ کے بعض عزرائیل ابھی تک محفوظ فصیلوں میں  قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔

ذیشان پر ملبہ ڈال کر خلیل کے اہل خانہ کو قتل خطاء کی اصطلاح میں لپیٹ کر دفن کرنے کی کوشش میں  ننگی تلواروں کو خبر نہیں کہ  ننھی منیبہ کی اپنی بہن اریبہ کو لاچارگی میں آجا  اریبہ آجا کی صدائیں، ذیشان کا ڈاکٹر بننے کا سپنا سجائے بیٹی کا پتھرائی ہوئی آنکھوں سے غلط کیا ابا اچھا تھا غلط کیا کا بین، نقیب کے والد کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انصاف کی یقین دہانی کرانے والا قاضی شہر اور حاکم وقت جان لیں کہ ان مظلوموں کی آہ بکا وہ نعرہ بننے کو ہے جس میں  پیغام ہے کہ تمہارے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے تقدس پامال ہو نہ کوئی انتشار سر اُٹھائے۔



اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.