سزا کس کو ملی !

 تحریر : شاہد انجم
 

دن بھر خبروں کے شور شرابے اور ٹریفک کے ہنگم سے دماغ کی تھکن کے بعد جب گھر پہنچے تو دیکھا کہ بیٹے نے ٹیلی ویژ ن پر کارٹون فلم لگا رکھی تھی۔تھوڑی دیر کے بعد بیٹے نے کہا کہ بابا آپ کو نیوز چینل لگا دیتا ہوں اس  لیے کہ میرے پڑھنے کا وقت ہے جس  کے بعد اس نے ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں دیا اور  دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ 

 چینل تبدیل کرتے ہوئے میری نظر نیشنل جیو گرافک چینل پر پڑی تو میں  نے دیکھا کہ جنگل کا سب سے خونخوار جانور چیتا اپنے شکار کے لئے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک  ایسی ہرن پر پڑی جو کہ زمین پر بیٹھی ہوئی تھی چیتے نے بھوک مٹانے کے لئے اسے آسان شکار سمجھتے ہوئے چالاکی سے دبوچ لیا ابھی وہ اپنے شکار کو کرنے میں  مکمل کامیاب نہیں ہوسکا تھا کہ اس نے دیکھا کہ جس ہرن کو شکار کر کے وہ اپنی بھوک مٹانا چاہتا ہے اس وقت  وہ اپنے بچے کو جنم دے رہی تھی  مگر چیتے کے وار سے وہ چند ہی لمحوں میں بچے کو جنم دے  کراپنی زندگی ہا ر گئی تھی  اس صورتحال کو دیکھ کر چیتا اپنی بھوک مٹائے بغیر اطراف میں دیگر ایسے جانوروں کو دیکھ رہا تھا جن کی نظر ہرن کے اس بچے پر تھی جس نے ابھی دنیا  میں آکر چند ہی سانسیں لی تھیں ۔

چیتے نے  خود کو  بہت بڑا قصور وار سمجھا اور فیصلہ کیا کہ وہ ہرن کے بچے کی حفاظت کرے گا شاید ایسا کرنے سے اس کے گناہ دھل جائیں گے اور اس کے دل و دماغ پر آنے والا بوجھ کم ہوجائے گا مگر کب تک وہ یہ  ذمہ داری نبھائے گا  اور ہرن کے بچے  کو دودھ کہا ں سے پلائے گا  شاید ایسا کرنا اس کے لئے بہت مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس جنگل میں بہت خونخوار جانور موجود ہیں یہ سائباں کب تک رہ پائے گا  ٹی وی اسکرین پر دیکھے جانے والی چیتے  کی کہانی کو دیکھ کر دل بھر آیا  اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ چینل کو تبدیل کیا جائے مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد شاید  دیکھے جانے والی کہانی کہیں اس سے زیادہ  دردناک  ہوگی۔ 

 چینل  تبدیل کرتے ہی دیکھا کہ پنجاب کے ضلع ساہیوال میں جان ومال کی حفاظت کی قسم کھانے والوں نے کس بے دردی سے سر عام خاندان کو گولیوں سے بھون ڈالا اور  اس واردات کے بعد خود کو سچا ثابت کرنے کےلئے خوش قسمتی سے بچ جانے والے  تین بچوں کو  پیٹرول پمپ پر  چھوڑنے کی کوشش کی ، یہ وہ بچے تھے جن کے سامنے ان کا سائباں جلا دیا گیا  ماں کی ممتا کو ختم کرکے باپ کا سایہ چھین  لیا گیا ، ان بچوں کو دیکھ کر  ثابت ہوا   کہ تم اس چیتے سے بھی زیادہ بدتر ہو جس نے شکار کے بعد کم از کم اس ہرن کے بچے کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھائی۔ 

 بہرحال اس خونی کھیل کا بھید کھلا اور اعلیٰ حکام تک جب یہ آواز پہنچی تو مختلف سمت سے سرکاری گماشتوں نے اس پر اپنی اپنی رائے دینا شروع کردی ہر ایک نے اس واقعے  کے ذمہ داران کو  سزا دلوانے کی بات اس صورت میں  کی کہ اس پر ایک جے آئی ٹی قائم کردی گئی ہے،   نتائج آنے  کےبعد اس میں پیش رفت ہوگی جبکہ واقعے کے فوری بعد ہی تمام ثبوت اور قاتلوں کا پتہ چل چکا  تھا مگر افسوس کہ حکومتی نمائندوں نے اپنی روش  نہ بدلی اور  بار بار اپنے بیانات کو متضاد بناتے گئے جس یہ اندازا ہوا کہ تم سے تو وہ جنگلی جانور اچھا تھا جس نے چند لمحوں میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ غلطی میں  نےکی ہے اور سزا بھی مجھے  ہی ملنی چاہئے مگر ساہیوال کے واقعے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن   کاخاندان لٹ گیا جو بچے زندگی بھر  اپنی ماں اور باپ کے پیار کو ترسیں گے  سزا تو اصل میں  انہیں ملی ہے ۔

 ساہیوال کے اس واقعے کے بعد حکومت یا اپوزیشن کے نمائندے  اس پر بھی سیاست ہی کر رہے ہیں اور لگتا ہے چند روز گزر جانے کے بعد لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے اس لئے  کہ اگر گناہ گاروں کو سزا نہ ملے تو پھر کسی اور شاہراہ پر اسی طرح کئی اور معصوم بچوں کے ماں باپ  کا  سایہ  ان سے چھین لیا جائے  گا۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.