خبر کہانی پوسٹ مارٹم


Postmortem of Khabar Kahani by Mansoor Ahmed



تحریر: منصوراحمد

کیا خبر اور کہانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے؟ میرے خیال میں نہیں ۔ ہر کہانی میں ایک ہیرو ہوتا ہے  اور ایک اس کی مادہ ہوتی ہے۔ کہتے ہیں نا پریم کہانی میں ایک لڑکا ہوتا ہے ایک لڑکی ہوتی ہے ۔ کسی کہانی میں ہیرو کو اس کی مادہ آسانی سے مل جاتی ۔ کسی کہانی میں ہیرو کو اپنی جان کے لئے ظالم  باپ، بھائی یا ماں اگر یہ نہ ہوئےتو ظالم سماج سے لڑنا پڑتا ہے، کسی  کہانی میں تو ہیرو ہی مر جاتا ہے اور کہانی ختم۔

خبر میں کہا جاتا ہے سب سے زیادہ اہمیت فائیو ڈبلیوز کی ہوتی ہے، لیکن اگر آپ کراچی کے شہریوں سے فائیو ڈبلیوزکا مطلب پوچھیں تو وہ دو ڈبلیو کا مطلب فوراً بتادیں گے یعنی ڈبلیو11  اور ڈبلیو18، کوئی بہت ہی بقراط مل جائے تو ایک ڈبلیو کا مزید اضافہ کرے گا یعنی واٹر بورڈ۔

 کب کہاں کیسے کیوں اور کیا؟ کیا مطلب کیا۔ ہمارے شہر میں سب سے مشہور کیا۔ ابے کیا ہوگیا  ۔۔۔ ابے کیاکردیا ۔۔۔ ابے جب یہ سب کیا تو مرکیوں نہیں گیا  ۔۔۔ کب کے بارے  میں کہا تو ایک ہی بات ابے کب جائے گا ۔۔۔ کب مرے گا  ۔۔۔ وہ کہتے ہیں نہ کب کب کی ملائی تیری ساس نے پکائی میں نے لب لب کھائی۔

کھانے سے یاد آیا خبروں میں الفاظ کھانا گناہ ہے لیکن ہم اپنی عادت مطلب اپنی صحت کے حساب سے الفاظ کھاجاتے ہیں، جب  ہی دوست یار ہمیں آرنلڈ شلوار نیکر اسٹیل باڈی پیتل کہتے ہیں۔ ایسی شاندار صحت ہے کہ بس لاجواب۔ لیجئے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ایک ڈبلیو کا بھی اضافہ کردیا۔ آجکل، کیسے کے بارے میں تو مت ہی پوچھیں ۔۔۔کیسے ہوا ۔۔۔لڑکوں میں کیسے بہت مشہور ہے کیسے پیٹا۔

 خیر بات خبر کہانی کی ہورہی تھی  ۔۔۔ پرانے وقتوں میں لیلی مجنوں ۔۔۔ ہیررانجھا  ۔۔۔سسی پنوں  ۔۔۔ بہت مشہور ہوئے ۔۔۔ حالانکہ اس وقت فیس بک اور واٹس ایپ بھی نہ تھے۔ مجھے یاد ہے ذرا ذرا جب ہیر کپڑے دھونے گھاٹ پر جایا کرتی تھی اور رانجھا بے چارا چھپ چھپ کر اس کا دیدار کرتا تھا ، پھر ایک وقت آیا ہیر گھاٹ کنارے  نسوار کی چٹکی لگانے کے بعد پاس رکھے لسی کے گھڑے سے لسی کا بڑا سا گھونٹ  لے ایک ڈکار مارتی اور  رانجھے کی طرف دیکھتی ہے جو ہیر کے لائے کپڑے دھونے میں مصروف تھا ۔

 ہیر کہتی ہے  اوئے رانجھے، شاباش جان لگا کر دھو ،گڈ     اوئے    میں صدقے میں واری ۔۔۔اور بےچارا رانجھا مزید جوش سے کپڑے دھونے لگتا ہے۔ رات بھر رانجھا تارے گنتا رہتا ۔ اتنی محنت اگر آج کے دور میں کرتا تو کسی ادارے میں اکاوئنٹنٹ لگ جاتا ۔۔۔ حساب لگایا کہ روز کتنے کپڑے دھوتا ہے سو ۔۔۔ دوسو  ۔۔۔ یہ سوچ کر ہی رانجھے کی نیندیں اڑ گئیں ۔۔۔ پتہ لگایا کہ ہیر اتنے کپڑے کہا ں سے لاتی ہے ، تو پتہ چلا ہیر کے بھائی کی شہر میں لانڈری ہے بس یہ پتا چلنا تھا ، رانجھا پھڑک کر گر ا اور تڑپ  تڑپ پر جاں بحق ہوگیا۔

 یہ کہانی تھی ۔ اگر اس کی خبر بنائی جائے تو کیسے بنتی ۔ ظالم محبوبہ نے محبوب کی جان لے لی ۔ اتنے کپڑے واش کرائے  کے بے چارا جان سے ہی چلاگیا ۔ ظالم محبوبہ کا خوفناک انتقام ۔ محبوب کو کپڑوں کی طرح دھو ڈالا۔ لکھنا تو اور بہت کچھ تھا لیکن کہتے ہیں پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔




اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔ 


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.