بلوچستان میں محمودخان اچکزئی کا مستقبل؟

کیا پشتونوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنےوالی قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا سورج بلوچستان میں غروب ہورہا ہے؟ اس کا جواب تو بلوچستان کی سیاست پر گہری نظررکھنےوالے ہی دے سکتے ہیں لیکن عام انتخابات میں اچکزئی صاحب کی پارٹی  کا بلوچستان سے جس طرح صفایا  ہوا ہے تو انہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئیے۔

  اگرچہ بعض لوگ اس شکست کو دھاندلی یا مقتدر قوتوں کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں  لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ محمودخان اچکزئی صاحب اور ان کی جماعت خود اس شکست کے ذمہ دار ہیں۔  گزشتہ دور حکومت میں اچکزئی صاحب کی پارٹی صوبے اور وفاق میں حکومت کی اتحادی تھی۔ صوبے میں  بلدیات اور تعلیم سمیت اہم محکموں کا قلمدان  پشتونخوا میپ کے پاس تھا ،صوبے کے گورنر پارٹی چیئرمین کے سگے بھائی تھے لیکن اس کے باوجود   بلوچستان میں ان پشتونوں کی حالت نہ بدلی جنہوں نے اچکزئی صاحب کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا البتہ خان صاحب کے خاندان کی حالت ضرور بدل گئی ہوگی کیونکہ ان کے خاندان کے کئی افراد بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔

 صرف یہ ایک وجہ کسی بھی جماعت کی شکست کے لیے کافی ہوتی ہے  کہ پارٹی  اقتدار میں ہو کر  بھی ووٹر کے طرز زندگی کو بدلنے کی کوشش نہ کرے یہاں تو پشتونخوا میپ کی شکست  کی  کئی وجوہات ہیں۔  نمبر ایک، پارٹی کی کارکردگی، پشتونخوا میپ نے بلوچستان بالخصوص پشتون بیلٹ جہاں سے عوام نے اس پر بھروسہ کیا تھا وہاں اس نے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا، ان علاقوں میں بجلی سے دو سے چار گھنٹوں کے لیے آتی ہے لیکن وفاق میں ن لیگ کے وکیل بن کر دفاع کرنےوالے اچکزئی صاحب نے کبھی یہ معاملہ نہیں اٹھایا۔ بلوچستان کے دیگر علاقوں کا ہم ذکر ہی نہیں کریں گے بلکہ محمود خان اچکزئی صاحب کے اپنے ضلع قلعہ عبداللہ کی تحصیل گلستان کو اٹھاکر دیکھ لیں اور بتائیں کتنے فیصد عوام کو گیس مل رہی ہے؟ کیا اس کے باوجود بھی وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ عوام ان کو ووٹ دیں گے؟۔

 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو عوام نے ووٹ دیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر ان کی خدمت کرے گی لیکن گزشتہ پانچ سال میں بلوچستان اسمبلی کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس پارٹی کے رہنماوں کو اپنے عوام اور ووٹرزسے زیادہ افغانستان کی فکر رہی،( قلعہ عبداللہ میں جو کالج بنا ہے وہ بھی افغان سرحد کے قریب ہے تاکہ سرحد پار سے لوگ آکر تعلیم حاصل کرسکے)۔ کیا پھر بھی وہ توقع رکھتے تھے کہ ان کی نظر میں بےوقوف رعایا ان ہی کو ووٹ دے گی؟۔

محمود خان اچکزئی کی سیاست کا محور قوم پرستی اور جنوبی پشتونخوا یا پشتونستان ہے لیکن عوام اب ان کھوکھلے نعروں سے عاجز آچکے ہیں آپ انہیں سڑک نہیں دے سکتے، بجلی، گیس ،روزگار ،تعلیم ،صحت نہیں دے سکتے وہ کب تک اس نعرے کےلولی پاپ پر گزارہ کرتے رہیں گے ؟ اور  اسی چیز کا فائدہ اٹھایا مخالف سیاسی جماعتوں نے، رہی سہی کسر ترین قبیلے کے سپوت حاجی عبدالرؤف خان ترین نے پوری کرلی انہوں نے عوام کو شعور دیا کہ ووٹ ان کو دینا ہے جو پاکستان کی بات کریں جو عوام کی بات کریں، عوام نے بھی حاجی عبدالرؤف کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے حریف کو کامیاب بنایا صرف یہی نہیں بلکہ حاجی عبدالرؤف ترین آج بلوچستان میں ایک توانا آواز اور پشتون اکثریتی علاقوں میں محمود خان اچکزئی کے لیے ایک بڑے چیلنج  کے طور پر سامنے آگئے ہیں   جو  پشتونستان اور افغانستان کی نہیں بلکہ عوام کے حقوق اور مسائل کی بات کرتے ہیں۔ 

محمود خان اچکزئی اور ان کی جماعت کی نادانیاں یہاں تک محدود نہیں ۔ ساری زندگی پنجاب مخالف سیاست کرنے والے محمود خان اچکزئی گزشتہ پانچ برسوں میں بھول گئے کہ پنجاب ’’غاصب ‘‘ہے، پنجاب نے چھوٹے صوبوں کا حق مارا ہے اور پنجابی استعمار نے ہمیشہ سندھ،بلوچستان،پختونخوا کے حقوق پر ڈاکہ مارا ہے ،یہ ہم نہیں کہتے بلکہ قوم پرست ہمارے ذہنوں میں سالہاسال  سے یہ بٹھارہے تھے لیکن اچکزئی صاحب نے حد کردی ،نوازشریف پر ایمان لاکر ان کے ہر جائز ناجائز کا دفاع کرنا۔

نوازشریف کی محبت میں حدیں پار کرنا شائد اچکزئی صاحب کو سب سے زیادہ مہنگا پڑا اور ان کے ووٹرز یہ سوچنے لگے کہ کہاں گئی اچکزئی صاحب کی نظریاتی سیاست،قوم پرستی کا سبق دینے والے اچکزئی صاحب نے ان کے لیے کچھ کیوں نہیں کیا ؟۔ایسے میں  ووٹرز  کرہی کیا سکتے تھے صرف ووٹ کے ذریعے بدلہ لے سکتے تھے اور انہوں نے خوب بدلہ لے لیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صوبائی ایوان میں پشتونخوا میپ کے صرف ایک رکن نصراللہ زیرے براجمان ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں اچکزئی صاحب کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں۔ اگر اچکزئی صاحب کی جماعت نے اب بھی پالیسی نہ بدلی  اور عوام کو عوام کے بجائے رعایا ہی سمجھا تو مستقبل میں شائد  ایک نشست بھی نہ ملے۔  
                           یہ بھی پڑھیے:بلوچستان میں مظلوموں اور کمزوروں کی مؤثر آواز

1 تبصرہ:

  1. کیا پشتونوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنےوالی قوم پرست جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا سورج بلوچستان میں غروب ہورہا ہے؟ اس کا جواب تو بلوچستان کی سیاست پر گہری نظررکھنےوالے ہی دے سکتے ہیں لیکن عام انتخابات میں اچکزئی صاحب کی پارٹی کا بلوچستان سے جس طرح صفایا ہوا ہے تو انہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئیے۔
    balochistan

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.