ٹریٹ کا کلچر



تحریر: منصوراحمد
 
یار میرا بلاگ  چھپ گیا۔۔واہ میرے دوست کیا بات ہے چل اسی بات  پر پارٹی ہوجائے ،،دوست حیران وپریشان ،،یار میرا بلاگ چھپا ہے ٹریٹ تم لوگوں کو دینی چاہیئے،،لیکن مرتے کیا نہ کرتے جیب ڈھیلی کرنی پڑتی ہے ورنہ دوست جان کے درپے  ہوجاتے ہیں طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں۔

ٹریٹ کلچر معاشرے کا عام چلن بنتا جارہا ہے یار میری سالگرہ ، مبارکباد سے پہلے جو آواز آتی ہے وہ ہوتی چل ٹریٹ دے، یار میں پاس ہوگیا ،،چل پھر پارٹی ہوجائے ، اتنا خرچہ تو پپو نے بھی پاس ہونے پر نہیں کیا ہوگا جتنا دوست کروا دیتے ہیں۔ باس نے تعریف کردی، چل بیٹا جلدی سے سموسے منگوالے، بھائی کیوں منگوالے،  جب باس سب کے سامنے بےعزتی خراب کررہے ہوتے ہیں اس وقت کونسا دوست پارٹی دے دیتا ہے ، اس وقت  سب ایسے منہ چھپا رہے ہوتے ہیں جیسے اگر مجھ سے کوئی تعلق نکل آیا تواس کا تعلق فلاں تنظیم کے فلاں دہشتگرد سے نہ نکلے ،،کہیں باس اس تعلق کی بنا پر اس کی بھی  خاطر تواضع نہ کردیں۔

خیر بات ہورہی ہے ٹریٹ کی۔  یہ کلچر آیا کہاں سے ؟اس کلچر کا موجد کون ؟مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے اس کا موجد  ٹریٹ کالا ہے ، کم بخت یہ اشتہار آتا نہ لوگوں  کی زبان پر یہ لفظ عام ہوتا یعنی اگر خوشی کی کوئی بات ہوگئی  تو مبارکباد  یا دعا تو دور کی بات  پیزا پارٹی،سموسہ پارٹی،مٹھائی پارٹی کی دہائیاں ایسے لگتی ہیں جیسے  یہ ان دوستوں کا حق ہے آپ نے کیا کردیا، اس میں کردار تو صرف دوستوں کا ہی تھا، اگر پارٹی  یا ٹریٹ نہ دی تو طعنے، دعا کی بجائے بدعا ملتی ہے اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ ایسے کمینے دوستوں کا منہ بند کرنے کے لیے ان  کے منہ میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا جائے ، نام بھی ہوجائے اور کام بھی ہوجائے۔

 میرے ناقص تجربے کے مطابق  مجھ سمیت سو میں سے نوے فیصد لوگوں کو ٹریٹ نام کی بیماری لاحق ہے۔جدید میڈیکل سائنس کی روشنی میں یہ ایک خطرناک بیماری ہے، جس کو اس کا تجربہ ہوتا ہے ذرا  اس غریب سے پوچھ لیا کریں، اوپر اوپر سے مسکرا رہا ہوتا ہے دل ہی دل میں ماتم کررہا ہوتا ہے ، یار میری بات پکی ہوگئی، واہ میرے یار ، چل جلدی سے پارٹی دے۔ لیجئے بات میری پکی ہوئی کھانا توتم لوگ شادی میں کھا ہی لو گے، مگر  دوستوں کے دوزخ کو بھرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ 

یہ بات بھی سچ ہے اگر یہ دوست نہ ہوں تو زندگی بے رنگ سی لگتی ہے، یہی دوست ہوتے ہیں جو کڑی دھوپ میں آپ کے ساتھ گھوم رہے ہوتے ہیں  اپنا اور   آپ کا رنگ کالا کررہے ہوتے ہیں گوکہ ہمارا رنگ کالا ہی نہیں سراسر کالا ہے، کبھی کبھی تو رنگ بھی چھوڑنے لگ  جاتے ہیں پھر بھی کہنے میں کیا حرج ہے، کرکٹ ہو اوردوست نہ ہو تو ایسی ٹیم میں کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں،یہی دوست ہوتے ہیں جو مشکل کی گھڑی میں آپ کے شانے سے شانہ ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

 کہتے ہیں دوست نہیں تو کچھ نہیں ،  بس کسی طرح اس دوستی سے اس ٹریٹ نام کی بیماری کو نکال دیا جائے تو دوستی سےاچھا کوئی رشتہ نہیں  لیکن کیا کیا جائے یہی ٹریٹ کلچر ہے جو دوستوں کو ملنے کا،  گپ شپ کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے اگر یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں نہ ہوں  تو زندگی میں کوئی رنگ نہیں رہ جاتا ،،تو ٹریٹ کلچر کے بارے میں ، میں نے جو کچھ  اوپر کہا اس پر بالکل یقین مت کیجئے گا ، کیونکہ دوست نہیں تو کچھ نہیں۔



اس تحریر کے مصنف منصور احمد ایک معروف نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں۔ منصور احمد مختلف ٹی وی چینلز، اخبارات و جرائد میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مصنف سے رابطہ کرنے کے لیے خبر کہانی کو ای میل کیجیے۔ 


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.