ثابت قدم رہے لیکن مشعل راہ نہ بن سکے

A D Khawaja removed as IG Sindh on ECP directives

تحریر: شاہد انجم

اپنے جنگلات سے منگوائی جانیوالی لکڑی کو آخر دیمک نے کیوں چاٹا، قدیم زمانے سے یہ خواہش تھی کہ گھر کے دروازے بڑے رکھوں گا جیسے کہ میرے دل کا دروازہ ہے، اچھی خوشبو آئیگی اور آنے والے مہمانوں اور دیگر افراد بھی اچھا تاثر لے کر جائیں گے مگر جیسے جیسے گھر قدیم ہوتا گیا، ایسا لگا کہ اب دروازے کو دیمک کے ساتھ گھن نے بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

یہ بیماری گرمی کی شدت اور نہ سردیوں کی ٹھنڈک سے ختم ہورہی تھی۔ اس سلسلے میں کئی بار مولوی، پنڈت، گرو اور پادریوں کی بھی مدد لی گئی۔ مزاروں پر چڑھاوے چڑھائے گئے، قرب وجوار میں رہنے والے قریبی دوستوں کی خواہشات کا بھی خیال رکھا گیا مگر کسی نے بھی اس سے چھٹکارے کی دوا نہ بتائی بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

حکومتی ٹھیکدار بھی نالاں رہے اور میر جعفر اور میر صادق جو  کہ ہماری آستینوں میں چھپے بیٹھے تھے ان سے میل جول کر کے مزید منافقتوں کا سفر بھی جاری رہا بلکہ میرے گھر کی چوکھٹ کو آہستہ آہستہ کاٹنے کی کوشش جاتی رہی اس کے باوجود میں ثابت قدم رہا کیونکہ عدل پر بیٹھے کچھ لوگ میرے کردار اخلاق اور ایمانداری سے واقف تھے جس کی وجہ سے میں ان منافقوں کے ٹولے اور سیاسی پنڈتوں کی خوہشات کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

یہ کہانی کسی اور کی نہیں بلکہ سندھ پولیس کے سابق سربراہ اے ڈی خواجہ کی ہے جو کہ ملک کی تاریخ میں بہت کم عمری میں آئی جی سندھ تعینات ہوئے۔ سوا دوسال کا عرصہ انہوں نے  ایسے حالات میں گزارا جہاں ان کی تعیناتی کے بعد سب سے پہلے سیاسی پنڈتوں نے ان پر پولیس کو سیاسی طور پر چلانے کے لئے دباؤ ڈالا۔

آئی جی سندھ نے اس دباؤ  کی مزاحمت کی اور ایسی تمام ناجائز خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے سندھ پولیس کو ایک غیر جانبدار ادارہ بنانے پر زور دیا۔  اے ڈی خواجہ کا موقف رہا  کہ ہم نے عوام کی جان و مال کی حفاظت کا حلف اٹھایا ہے اس سے کیسے منہ موڑا جا سکتا ہے اور اگر ایسا کر بھی دیا تو دنیا کے بعد کی عدالت میں بھی تو جواب دہ ہونا ہے۔

اس رسہ کشی میں بعض افسران جو کہ اب بھی اعلی عہدوں پر براجمان ہے ایک سکیورٹی ادارے کے ملازم ہونے کے ساتھ سیاستدان کا کردار بھی ادا کرنے لگے۔ انہوں نے سابق آئی جی سندھ کو پہلے تو یقین دلایا کہ وہ سیاستدانوں کے نہیں بلکہ ادارے اور آپ کے وفادار ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس تھی۔  

وقتافوقتا وہ سیاستدانوں سے مل کر سازشوں کی ایک فیکٹری تیار کرتے رہے اور سازش کے تحت آئی جی سندھ کو ہٹا کر اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتے رہے مگر اے ڈی خواجہ کی صاف نیت نے ان کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔  البتہ ملک میں عام انتخابات 2018 کا اعلان ہوا تو الیکشن کمیشن کی طرف سے ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح سندھ کے آئی جی کو بھی تبدیل کرنے کی شفارش کی گئی اور آخر کار اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

عہدے سے ہٹنے کے بعد اے ڈی خواجہ نے ان تمام حالات کے بارے میں بتایا جن کا ان کو سامنا رہا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنی تعیناتی کے دوران یہ باتیں کرتے تو میر جعفر اور میر صادق جیسے کردار نمایاں ہوجاتے۔ اس طرح نئے آنے والے آئی جی بھی ان سازشوں سے خبر دار رہتے۔


اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.