لیاری کراچی میں نہیں، کراچی لیاری میں ہے جناب

تحریر: امجد بلیدی
Lively Lyari - Lyari isn't in Karachi, Karachi is in Lyari - Photo by Khabar Kahani

بعض دوست مجھ سے گلہ کرتے ہیں کہ جب تم لکھتے ہو اس میں بیشتر حصہ لیاری کا ہوتا ہے،  ان دوستوں کو بڑے ادب کے ساتھ میں بتا نا چاہتا ہوں کہ لیاری پر میں جتنا بھی لکھوں شاید کم ہو۔ لیاری کسی ایک علاقے،شہری حصہ یا پسماندگی کا نام نہیں، لیاری تو اپنے آپ میں ہی ایک الگ اور نرالی دنیا ہے جہاں کراچی کی تاریخ رقم ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ کراچی کو جاننا ہو تو لیاری کو دیکھو ،لیاری میں کراچی کی رنگینیاں آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں جہاں تاریخی اور انوکھےناموں والی جگہیں اب بھی موجو د ہیں۔

لیاری کی اگر تعریف کروں تو لیاری جھٹ پٹ مارکیٹ ہے جس میں مختلف انواع و اقسام کے ٹھیے لگے ہوئے ہیں۔ لیاری، اس مارکیٹ میں مجھے کریم بخش کی ٹوکری میں رکھی بدبو دار مچھلیوں میں بھی دکھتا ہے تو انور بھائی کی دوپٹے رنگنے کی دکان میں بھی،لیاری کہیں  غریب شاہ  میں قائم دکانوں میں رنگ برنگے جوتوں میں نظر آتا ہے تو  کہیں سینگولین کے سربازی گراؤنڈ میں دھول اڑاتے ان جوتوں میں بھی دکھتا ہے جو فٹبال کو اپنی قوت کے ساتھ آگے بڑھا ر ہے ہیں۔

لیاری لیمارکیٹ میں ملیر اسٹاپ پر موجود ہے اورلیاری مولا مدد پر بھی بھیڑ کی صورت نظر آتا ہے۔ لیاری فٹبال گراؤنڈز کے گرد باکسنگ کلبوں میں بھی ہے تو لیاری کبھی ان گلوز کی صورت میں بھی جو لڑکیوں نے پہن رکھی ہیں۔ لیاری کبھی چاکیواڑہ کی صورت میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو لیاری کبھی کلاکوٹ کی طرح بھولی بسری یادوں میں تنہا تنہا دکھتا ہے۔

Lively Lyari - Lyari isn't in Karachi, Karachi is in Lyari - Photo by Khabar Kahaniلیاری کلری  میں کبوتریوں کے پنجروں میں بھی نظر آتا ہے اور کمہار واڑہ  میں مٹی کے برتنوں میں بھی۔ لیاری کوکبھی چیل چوک تو کبھی افشانی گلی کی شکل میں پاتا ہوں، لیاری کبھی بمباسہ اسٹریٹ تو کبھی کھڈہ مارکیٹ  کی صورت سامنے سے گزر تا سایہ سا لگتا ہےتو لیاری کبھی بغدادی کاپاوااور کبھی  جونا مسجد پر ملباری کی چائے لگتا ہے۔  میں اسکول کے زمانے میں لیاری کوبہار کالونی کی گلیوں میں دیکھا کرتا تھا میں آج لیاری کوگل محمد لین کی  زخم  خوردہ  دیواروں میں دیکھتا ہوں۔

لیاری میں کوئی بھی خاص ایونٹ ہو اور ہمیں جان کاری نہ ہو یہ بات باعث تشویش ہوگی۔ دو دن قبل ہر دلعزیز عبدالعزیز آسکانی  صاحب کی جانب سے واٹس ایپ پر پیغام آیا کہ لیاری سے متعلق "روز یوتھ پوائنٹ "چاکیواڑہ میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے بینر تلے "الجھا سلجھا لیاری " کے عنوان سے ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں آپ کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ واٹس ایپ پر پیغام پڑھتے ہی انتظار کی گھڑی چلنا یوں شروع ہوئیں کہ ٹھیک ایونٹ کے دن دوپہر ڈھائی بجے "روز یوتھ پوائنٹ چاکیواڑہ"  میں پہنچنے پر رکی جہاں گیٹ پر جناب آسکانی صاحب اور ہماری اردو کے روح رواں سر شبیر حسین بلوچ نے استقبال کیا۔

Lively Lyari - Lyari isn't in Karachi, Karachi is in Lyari - Photo by Khabar Kahaniایونٹ شروع ہونے میں تاخیر ضرور ہوئی یا لوگوں کے آنے میں خیر قریباً تین بجے کے قریب ایک ڈاکو مینٹری کے ذریعے اس مباحثے کی میزبانی کے فرائض انجام دینے والے  اویس ربانی  نے اس کا آغاز کیاجس میں رمضان بلوچ صاحب ،نجمہ جبیں اور اویس احمد خان آفریدی پینلسٹ  کی صورت باری باری اسٹیج پر بلائے گئے۔

اس مباحثے کی ابتداء  اتنی خاص نہیں تھی جتنی مہمانوں اور میزبانوں کے جملوں کے بعد ہوئی۔ لیاری کوجہاں رمضان بلوچ صاحب کی باتوں میں  خوبصورت پایا تو وہیں اویس احمد آفریدی کے جملوں میں مہمان نواز بھی۔ اس مباحثے میں جہاں نجمہ جبیں نے لیاری کو مذہبی  ہم آہنگی کی درس گاہ قرار دیا تو وہیں شبیر بلوچ صاحب نے اس کا سہرا ان اساتذہ کے سر پہنایا جنہوں نے یہاں شعور کا علم بلند کیا۔

یوں کہہ لیں گویا لیاری مقررین کے ساتھ ساتھ حاضرین کی باتوں میں الگ الگ شکلوں میں پیش ہوتا رہا، حبیب جان کی جانب سے لیاری کو باقی شہر کس نگاہ سے دیکھتا ہے بڑی خوبصورتی  سے بیان کیا گیا اور اس کے ساتھ یہاں روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے متعلق بھی نہایت عمدہ مشورے دئیے گئے۔

جہاں اس  ایونٹ کی خوبصورتی اس مباحثے کو سننے کیلئے نوجوانوں کی موجودگی میں  صاف اور واضح نظر آرہی تھی تو وہیں  نہ جانے کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ لیاری اب بھی باقی شہر کیلئے ایک اجنبی سی جگہ ہے باوجود اس کے کہ  یہ شہر یہیں سے آباد ہوا۔ 

لیاری کو دہشت اور خوف کا گڑھ سمجھنے والوں کو شاید اب بھی اس کی رونقوں کا اندازہ نہیں ہوا،  اگر ہوا ہوتا تو شاید یہ سننے کو نہ  ملتا کہ "لیاری کراچی میں ہی  ہے جناب"، بلکہ لوگ کہتے نظر آتے کہ کراچی لیاری میں ہے جناب۔ 


Lively Lyari - Lyari isn't in Karachi, Karachi is in Lyari - Photo by Khabar Kahani



اس تحریر کے مصنف امجد بلیدی منجھے ہوئے صحافی ہیں جن کے مختلف اخبارات اور جرائد میں کالم اور بلاگ شایع ہوتے ہیں۔ وہ ایک نیوز ٹی وی چینل سے منسلک ہیں جہاں وہ صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے  رہے ہیں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. very nice sharing indeed its like that layari in not in karachi karachi is in layari very talented very hard working people live there
    karachi

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.