ملک صاحب کی چوتھی بیوی

Government ministers should behave decently, article by Shahid Anjum

تحریر: شاہد انجم

تہوار ہو یا کوئی بھی خوشی کا موقعہ، گلی محلوں میں ہر طرف بچے بچیاں زرق برق کپڑے پہنے نظر آتے۔ گھروں پر صفائی ستھرائی کا کام بھی ہوتا، بزرگ اپنے اپنے خاندان کے بچوں کو کاندھوں پر اٹھائے کھلے چہروں کے ساتھ دوستوں سے ملتے۔

جھونپڑی میں بھی رہنے والے خاندان ایسے موقعہ پر خوشیاں بانٹتے، لذیذ کھانوں کا انتظام بھی کیا جاتا، رشتے دار ایک دوسرے کی دعوت کرتے اور ایسے تہواروں کو اس طرح سے منایا جاتا کہ آنے والے تہوار تک اسے یاد رکھا جائے۔

چھوٹے سے اس گاؤں میں لوگ محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے۔ گھروں کی چھتوں پر موم بتیاں لگائی جاتیں کیا نظارہ ہوتا تھا مگر خان صاحب کا قلعہ نما محل جو کہ کئی نسلوں پہلے تعمیر کیا گیا تھا ایسے موقعہ پر بھی شام غریباں کا منظر پیش کرتا تھا۔

اس کی کئی وجوہات سامنے آئیں مگر شاید اسے زبان زد عام نہیں کیا جا رہا تھا اور نہ ہی گاؤں اور اس کے اطراف میں بسنے والے لوگ کبھی یہ جرات کرتے تھے کہ اس بارے میں ملک صاحب سے پوچھا جائے۔ محل میں ایک درجن سے زائد کمرے تھے جس میں ملک صاحب کی تین بیویاں رہائش پذیر تھیں جبکہ آپ چوتھی شادی کے لیے بھی اصرار کر رہے تھے۔

چند روز بعد ملک صاحب نے اپنے قریبی رشتےداروں کو بلایا اور کہا مجھے اپنی جائیداد کے لیے ایک وارث چاہیے لہذا آپ لوگ میری چوتھی شادی کے بارے میں انتظامات کریں جس پر تمام رشتےداروں نے صلاح مشورے کے بعد ان کے لیے چوتھی دلہن تلاش کر لی مگر شرط بہت بڑی تھی کہ اگر وہ اس کی امیدوں  پر پوری نہ اتری تو اسے چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔

بہرحال یہ تمام شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے لڑکی نے شادی کی حامی بھر لی اور کہا کہ میں پوری کوشش کروں گی کہ ملک صاحب کی امیدوں پر پوری اتروں اور انہیں وارث دے سکوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ ملک صاحب کی اس سے پہلے جو ان کی زوجیت میں تین خواتین ہیں ان کے ہاں صرف لڑکیوں کی ولادت ہوئی ہے۔ میرے نصیب اچھے ہوئے تو ملک صاحب کی خواہش پوری بھی ہوگی اور اس محل میں عید کے تہوار پر خوشیاں بھی منائی جائیں گی۔

نکاح ہو گیا دلہن گھر آ گئی کچھ وقت گزرا اور لوگوں نے معلومات لینی شروع بھی کر دیں مگر چوتھی دلہن نے اب میل ملاپ بہت کم کر دیا تھا اس لیے کہ گزرے ہوئے دن کے ساتھ وقت میں کمی ہوتی جا رہی تھی کہ اگر ملک صاحب کی خواہش کو پورا نہ کر پائی تو مجھے بیوہ کی طرح زندگی گزارنی پڑے گی۔ دلہن کی پریشانی اس کے چہرے سے عیاں تھی اور اب وہ نئے نئے نامور حکیموں  سے رابطے بھی کر رہی تھی تا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔

ملک صاحب کی چوتھی بیوی کی کہانی بھی ہماری موجودہ حکومت سے کوئی مختلف نہیں ہے جسے بہت سارے مخلص پاکستانیوں نے اپنی کاوشوں سے حکومت دلوائی، حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے دعوے اب صرف دعوے ہی دکھائی دے رہے ہیں اور اس ملک کے ساتھ مخلص طاقتوں کی طرف سے انہیں جو وقت دیا گیا تھا اس میں بہت سے اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے لیکن ایسا ہوتے ہوئے بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے اس لیے کہ ان کے ساتھ جو لوگ منسلک ہیں وہ انتہائی نہ تجربہ کار نظر آتے ہیں۔

حکومت ملک صاحب کی چوتھی بیوی کی طرح نت نئے حکیم تلاش کرتی نظر آ رہی ہے۔ جن طاقتوں نے اس کا بھر پور ساتھ دیا ہے وہ پس پردہ ہیں کیونکہ نتیجہ اسی حکومت کو سامنے لانا ہے جس کے بارے میں فی الحال کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ رشتے داروں میں کچھ ایسے بھی لوگ موجود تھے جو اس شادی پر رضامند نہیں تھے۔

اسی طرح موجودہ حکومت کو سیاسی میدان میں جن سیاسی پنڈتوں کا سامنا رہا وہ بھی اسے ناکامی کی طرف موڑنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے اس لیے کہ اگر دیئے ہوئے وقت پر حکومت نے اپنا کام مکمل کر لیا تو انہیں شاید آئندہ پارلیمنٹ میں آنے تک اور بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔

اگر موجودہ حکومت نے اپنے وفاقی و صوبائی وزراء کو اخلاقیات کی تعلیم سے آراستہ نہ کیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے یو ٹرن کے سلسلے کو نہ چھوڑا تو ایسا نہ ہو کہ حکومت کو ایک دن  اقتدار سے بھی یوٹرن لینا پڑ جائے۔


قومی و صوبائی اسمبلیوں میں جس طرح کے الفاظ ادا کیے جارہے ہیں وہ شاید ہماری ثقافت کا حصہ نہیں لہذا انہیں چاہیے کہ وہ اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تاکہ وہ اپنے ووٹرز کے دل میں جگہ بنائے رکھیں۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.