اشرفیاں، جامعہ اور میڈیا


Teacher is always respectful

تحریر: عبید شاہ

ٹھاٹھے مارتے سمندر میں بحری جہاز ہچکولے کھاتا آگے بڑھ رہا تھا جہاز پر محمد بن اسماعيل بخاری نامی عالمانہ وضع رکھنے والا شخص سوار تھا جس کی سادگی کو دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ہوگا کہ یہ شخص کتنا دولتمند ہے ایسے میں ایک شریک سفر کی محمد بن اسماعیل سے دوستی ہوجاتی ہے اور باتوں باتوں میں اُس شخص کو پتہ چلا کہ عالمانہ وضع رکھنے والے اس شخص کے پاس ایک ہزاراشرفیاں موجود ہیں جو کہ اُس وقت کی انتہائی خطیر رقم تھی۔  

ایسے میں اُس شخص کے دل میں فطور آیا اور اُس نے سوچا کوئی حیلہ کرکے محمد سے ایک ہزار اشرفیاں ہتھیا لیتا ہوں مولوی ٹائپ آدمی ہے کوئی یقین بھی نہیں کرسکتا کہ اتنی بڑی رقم اس شخص کی ہوگی۔ یہ سوچ کر اُس نے شور مچادیا کہ اُس کی ایک ہزار اشرفیاں چوری ہوگئی ہیں یہ سننا تھا کہ جہاز پر تلاشی کا کام شروع ہوا اور ایسے میں محمد بن اسماعیل کی بھی تلاشی لی گئی لیکن اُس کے پاس سے ایک اشرفی تک نہ نکلی تنگ آکر لوگوں نے الزام لگانے والے کو ہی کہا کہ تیرے دماغ میں ہی کوئی خلل ہے جو تو نے یہ بہتان گھڑا۔

 سفر ختم ہونے پر اس بد دیانت شخص نے محمد سے اشرفیوں کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ تھیں تو آپ کے پاس ہی پھر گئی کہاں یہ سن کر محمد نے کہا کہ مجھے پتہ ہے تو نےا لزام  میرا حلیہ دیکھ کر لگایا ہے  یہ اشرفیاں میری تھیں جنہیں تو اتنی آسانی سے نہ لے سکتا تھا اور شاید ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والے میرے حق میں یا پھر رقم آدھی آدھی بھی تقسیم کردیتے  لیکن اس الزام  کی وجہ سے میرا علم میری تحقیق مشکوک ہوجاتی اس وجہ سے میں نے وہ اشرفیاں سمندر بُرد کردیں۔  

وہ بولا کہ اتنی بڑی رقم کا نقصان تم نے کیسے برداشت کرلیا۔  محمد نے جواب دیا کہ جس علم کو میں نے تمام عمر حاصل کیا ہے۔ کیا اُسے میں چوری کا اشتباہ اپنے اوپر لے کر ضائع کر دیتا۔ اور ان اشرفیوں کے عوض اپنی دیانت وامانت و ثقاہت کا سودا کر لیتا میرے لئے ہرگز یہ مناسب نہ تھا۔

دنیا نے دیکھا کہ اپنا علم تحقیق اور شخصیت کو ہر قسم کہ بہتان سے پاک رکھنے کا انعام  محمد بن اسماعیل کو یہ ملا کہ آج دنیا انہیں امام بخاری کے نام سے جانتی ہے جی ہاں وہی امام بخاری جو احادیث کی چھان پھٹک کر ترتیب دینے میں اتنا اونچا  مقام رکھتے ہیں  کہ صحیح بخاری شریف کا درجہ صحت میں قرآن پاک کے بعد دوسرا ہے۔

امام بخاری نہیں چاہتے تھے کہ انکی تصانیف کا مطالعہ کرنے والا انکی سوانحہ عمری میں چوری جیسے سنگین الزام خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو سُن کر انکی تحقیق و علمی رائے پر تذبذب کا شکار ہو ایک معلم کی حیثیت سے وہ اپنا کردار غیر متنازع رکھنا چاہتے تھے اشرفیاں بھی ان ہی کی تھی کسی بدبخت کے نیت کے کھوٹ پر وہ بحث و دلائل سے خود کو سچا بھی ثابت کرسکتے تھے اور یہ کام اتنا مشکل بھی نہ تھا کیونکہ وہ اپنے زمانے کے بلینئیرز میں سے تھے ایک روایت کے مطابق انہوں نے الزام سے بچنے کے لیئے چھ لاکھ اشرفیاں سمندر میں پھینکی تھیں۔ 

امام بخاری کمال حکمت سے اس بہتان سے محفوظ رہے لیکن آج اس اکیسویں صدی میں جب تحقیق و تفتیش کی سہولیات میسر ہیں ایسے میں چند ناعاقبت اندیشوں نے اساتذہ کرام کیخلاف بہتان کا بازار گرم کر رکھا ہے یہ سچ ہے کہ ملکی جامعات میں ہراسگی کے واقعات ہوتے چلے آئے ہیں لیکن ایسے اقدام کی روک تھام اور ملوث افراد کو قرار واقع سزا دینے کے بجائے اب اسے ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جارہا ہے اس بار بھی مقصد اشرفی ہتھیانے یا اشرافیہ بنے کا ہے اور ان عزائم کی پشت پناہی ریاست کا چوتھا ستون جم کر کر رہا ہے فقط اپنے قیاس اور نام نہاد مظلوم کی داد رسی کا دعویدار میڈیا حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی عدالت لگاتا ہے چنگھاڑتا ہے ایک فریق کے الزام کو سچ بنا کے سناتا ہے اور سزا کا تعین تک کردیتا ہے۔

ملکی عدلیہ ان معاملات کو دیکھتی ہے تو بہتان بازوں کو اہنی زبان پر قابو رکھنے کا حکم صادر فرماتے ہوئے سوال کرتی ہے کہ کیا میڈیا داد رسی کا کوئی ادارہ ہے،  اساتذہ کا وقار نہ رہا تو کوئی بھی راہ چلتا اشرفیوں کی چوری کا الزام لگاتا رہے گا جو کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنے گا عدلیہ میں ہراسگی کامعاملہ تو  سامنے نہ آسکا لیکن کئی پنڈورا بکس کھلنے کو ہیں ریٹنگ کے بھوک یا پھر اپنی عصبیت کی پرستش میں تکریم اساتذہ اور درسگاہوں میں ایسے بہتان گھڑنے والے جلد بے نقاب ہونے کو ہیں کیونکہ ان بد نیتوں کا مقصد تو اُن اشرفیوں کا حصول ہے جو ان کے نصیب میں ہی نہیں ہوتیں  وہ اشرفیاں مال ،مرتبہ کسی بھی شکل میں ہوں ایک اچھا معلم اپنا دامن صاف رکھنے کی خاطر سمندر بُرد کردیتا ہے۔





اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.