مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

Dr Ameer Ahmed Shaikh, new Karachi police chief claims to take stern action against street criminals

تحریر: ارمان صابر

کراچی کے نئے پولیس چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے چارج سنبھالنے کے بعد پہلی نیوز کانفرنس میں اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف بھرپور کارروائی کا اعلان کیا ہے۔

عوام کی نظر سے دیکھا جائے تو نئے پولیس چیف نے انتہائی حوصلہ افزاء اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کی پولیس کی جانب سے کم ہی توقع کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے کہا ہے کہ اسٹریٹ کرائم کے متاثرہ افراد سے ہم خود رابطہ کریں گے، انہیں ہم کو ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر امیراحمد شیخ نے کئی دعوے کیے ہیں جن میں پراسیکیوشن کو مضبوط کرنا، ایک اور ہیلپ ڈیسک کا قیام، پولیس کے خلاف شکایات کے لئے واٹس ایپ نمبر کا اجراء، ملزمان کی فہرستوں کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنا، اور دیگر اقدامات شامل ہیں۔

اعلیٰ پولیس افسر کی ان باتوں پر اگر دس فیصد بھی عملدرآمد ہوجائے تو یقین کریں پولیس پر عوام واری ہوجائیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب، آپ کے ان دعووں سے ہمیں تین سال پہلے کی وہ پریس کانفرنسز بھی یاد آگئیں ہیں جو آپ نے ڈی آئی جی ٹریفک کی حیثیت سے کی تھیں۔

یہاں مومن خان مومن کا وہ مصرع یاد آرہا ہے۔مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

امیر احمد شیخ نے بطور ڈی آئی جی ٹریفک موٹرسائیکل چلانے والوں اور ان کے ساتھ بیٹھنے والوں اور والیوں پر ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا تھا اور اس کے لئے باضابطہ مہم کا آغاز بھی کیا گیا تھا۔انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس قانون کا اطلاق پولیس افسران و اہلکاروں پر بھی ہوگا اور جو بھی خلاف ورزی کرتا پایا گیا، جرمانہ ادا کرے گا۔

 سیفٹی کے لئے بہت ہی اچھا اقدام تھا، لیکن کیا یہ قانون قابل عمل ہوسکا۔ جس شدومد سے یہ مہم شروع کی گئی اتنی ہی جلد بازی میں ختم بھی کردی گئی۔ پولیس کو ہیلمٹ کی پابندی کے نفاذ کا خیال صرف مہم یا تہواروں سے قبل ہی آتا ہے۔ اب عید قرباں قریب ہے اور پولیس قانون کا نفاذ کرانے پر تلی ہوئی ہے۔ اسی دوران اگر کوئی مٹھی گرم کردے تو قانون صاحب سے معذرت۔

بطور ڈی آجی ٹریفک، ڈاکٹر امیر احمد شیخ صاحب نے اسکول وینز کے خلاف بھی ایکشن لینے کی ٹھانی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اسکول ٹرانسپورٹرز کے ڈرائیورز بچوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ یہ مہم بھی انتہائی زورشور سے شروع کی گئی۔ اخباروں میں ٹی وی پر خوب ہی خبریں گرم رہیں۔

ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ تمام اسکول وین یا بسوں کا رنگ پیلا ہوگا، بچوں کو اتارنے اور چڑھانے کے لئے ہیلپر ہوگا، اسکول بسوں یا  وینز میں گیس سیلنڈر لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ تمام اقدامات خوش آئند تھے لیکن ان پر کتنا عملدرآمد کیا گیا؟

اسکول بسیں آج بھی رنگ برنگی ہیں، سڑک پر چلنے کے لئے فِٹ نہیں لیکن اسکول میں چل رہی ہیں، ہیلپر تو کجا بیشتر اسکول بسوں اور وینز میں دروازہ تک نہیں، اور شاید ہی کوئی اسکول بس یا وین ایسی ہو جس میں گیس سیلنڈر نہ لگا ہو۔

ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے یہ بھی کہا تھا کہ رکشہ اور ٹیکسی کے کرائے کا نظام بھی وضع کیا جائے گا۔ تین سال گزرنے کے بعد بھی ٹیکسی اور رکشہ کے کرائے کا نظام وضع نہیں کیا جاسکا۔

بات ہو رہی تھی ماضی کے دعووں پر جو دعوے ہی رہ گئے۔ اب بات کرتے ہیں نئے دعووں کی۔ نئے سٹی پولیس چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے اعتراف کیا ہے کہ کمزور پراسیکیوشن کی بنیاد پر ملزمان عدالتوں سے ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف مضبوط کیس بنائیں گے تاکہ انہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں۔

کراچی سمیت ملک میں پراسیکیوشن کی شرح چار سے پانچ فیصد ہے اور اس شرح کو بڑھانے کے لئے ماضی میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا لیکن نتیجہ اب تک وہی ڈھاک کے تین پات ہے۔ امیر احمد شیخ صاحب اگر اس شرح کو بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں تو یقیناً کارنامہ ہوگا۔

پھر سٹی پولیس چیف نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ قبضہ مافیا اورمنظم جرائم کی سرپرستی کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کر کے انہیں گرفتار کیا جائے  گا۔ یہ بھی قابل ستائش اقدام ہوگا جس سے عوام کو ریلیف ملے گا لیکن یہ یاد رہے کہ مافیا بہت زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں، راست باز اور بااصول سمجھے جانے والے  آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے سامنے جب راؤ انوار کا معاملہ آیا تو انہیں بھی اپنے سخت اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑا تھا۔

امیر احمد شیخ صاحب، اب آپ سٹی پولیس چیف ہیں، پرانے اور نئے وعدوں کو نبھانے کا سنہری موقع ہے۔ اگر اس بار بھی آپ کے دعوے، دعوے ہی رہ گئے تو آئی جی بن کر بھی کیا نئے دعوے  کریں گے؟




اس تحریر کے مصنف ارمان صابر کا صحافت میں وسیع تجربہ ہے۔ وہ انگریزی اخبار اوربین الاقوامی ادارے سے بھی منسلک رہے۔ ان کی تحاریر مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شایع ہوچکی ہیں۔  آج کل وہ ایک بڑے نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔  ان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ارمان صابر کے بارے میں مزید جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.