رقیب کی شادی

We will observe August 14 as day of struggle: Maulana Fazlur Rahman

تحریر: شاہد انجم

گڑیا کی شادی کا وقت جیسے جیسے قریب آرہا تھا تیاریاں مکمل ہوتی جارہی تھیں۔ گھر کو برقی ققموں سے سجایا گیا تھا۔ شادیانے بج رہے تھے اور قریبی رشتہ دار وں، دوست احباب کو دعوت نامے بھی ارسال کردیئے گئے تھے۔

گڑیا ایک بڑے خاندان کی بیٹی تھی۔ ہر خاندان پر امید تھا کہ  اگر وہ ان کے گھرانے کی دلہن بن جائے تو ان کے نصیب جاگ جائیں گے، اس لئے کہ گڑیا سونے کی چڑیا  کی مانند تھی، اسے حاصل کرنے کے لئے ہر کوئی  بھرپور کوشش بھی کرتا رہا تھا اور رشتہ حاصل کرنے کے لئے  ہر کوئی دوسرے کو رقیب سمجھ کر اس کے بارے میں اپنی اپنی  آراء سے  لوگوں کومطلع بھی کررہا تھا۔

نصیب نصیب کی بات ہے، یہ انار کس کی جھولی میں گرنا تھا اس کے بارے میں کسی کو خبر نہ  تھی اور اس لیے سب امیدوار پرامید تھے  کہ گڑیا ان کے حصے میں ہی آئے گی۔ وہ بہت عرصہ سے اس باغ میں  مالی کے طور پر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے اور بعض تو اس کا پھل بھی پکنے  پر خود ہی کھا جاتے تھے ۔

وقت  نے کروٹ لی اور باغ کے مالی کو تبدیل کردیا گیا۔ دوسرے مالی کو اب یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ اس کی رکھوالی کرے تاکہ اس باغ کا پھل اس علاقے کے تمام لوگ کھا سکیں  جس کا جتنا حصہ ہے اس کو ایمانداری سے پہنچایا جا سکے۔ یہ کوشش ہے اب یہ کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہے ان تمام معاملات کا جواب دینے کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔  

دلہا کے امیدوار ابھی اپنے اپنے گھروں پر ہی تھے کہ علاقے کے لوگوں کی طرف سے یہ فیصلہ کردیا گیا کہ اب اس باغ کا مالی کون ہوگا اور گڑیا کی شادی کس سے طے پائے گی۔ 

اس اعلان کے بعد تو رقیب بھڑک اٹھے اور انہوں نے دیکھا کہ اب وہ بے موسم کے پھل تو دور کی بعد شاید وہ موسم کا پھل بھی کھانے سے بھی محروم رہیں گے ۔ انہوں نے دلہا کی کردار کشی کیلئے برائی کو بھی شامل کرلیا اور اپنی جھگی  میں موجود ان گھٹلیوں کے نکلنے سے دڑ گئے جس سے انہیں  بے نقاب ہونے  کا ڈر تھا۔

بہر حال یہ فیصلہ تو اب انہیں ماننا ہی پڑے گا کیونکہ علاقے کے لوگوں نے بھی رضا مندی سے مالی کا انتخاب کیا۔ اب وہ جیسا بھی ہے اسے قبول تو کرنا ہے۔  گڑیا کی شادی کی رسم میں زیادہ وقت باقی نہیں تھا شادیانے کا ڈھول جو کہ رقیب کے سینے پر ایک میزائل کی طرح لگ رہا تھا اسے کیسے ٹھنڈا کیا جائے تو رقیبوں نے باجماعت ہوکر فیصلہ سنانے والوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے کا عندیہ دیا۔

ان کا یہ غصہ پاکستانی سیاست سے منسلک لگتا ہے جہاں چند روز قبل ہوئے عام انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنادیا اور ہارنے والے چند سیاستدانوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے تحفطات کا اظہار کرتے ہوئے انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا، پھر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کردیا۔

افسوس کہ اب یہ بات  تحفظات سے دور نکل چکی تھی اور رقیب اب  دولہا پرنہیں بلکہ ریاستی انتظامیہ اور مالی کو منتخب کرنے والوں پر وار کررہے ہیں۔ ہمیشہ سے اقتدار کا حلوہ کھانے والے اور باغ کی بڑی جھگی میں رہائش رکھنے والے مولانا فضل الرحمان نے اپنی بندوقوں کا رخ اہم لوگوں کی طرف کردیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان سیاسی فائرنگ کرتے ہوئے یہ بھول گئے کہ جس باغ کا پھل وہ ہمیشہ کھاتے رہے ہیں اور جس باغ میں وہ سانس لیتے رہے ہیں اب وہ اس گلشن کے یوم آزادی کو یوم جدوجہد کے طور پر منانے کا اعلان کررہے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب قوم سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے یوم آزادی جوش و جذبے سے مناتی ہے۔

ان کے اس بیان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو۔ لہذا میری مولانا فضل الرحمان صاحب سے عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ عوام کے اس فیصلے کو قبول کریں جس نے آپ کو مسترد اور باغ کے نئے مالی کو چنا ہے۔ 


عوام کے اس فیصلہ کو کھلے دل سے تسلیم کریں، اس لئے کہ اگر اس مالی نے باغ کی خدمت صحیح طریقے سے نہ کی، اس میں نئے پھول نا اگائے، خوشبو والے پودے نہ لگائے، تو یقین رکھیں آئندہ  انتخابات میں عوام اس کو بھی مسترد کردیں گے۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.