مان لو، تبدیلی نہیں آنے کی

Opponents join together when in opposition to topple government, why?


تم چورہو، وہ جھوٹاہے، اس نےکرپشن کی، یہ ملکی خزانہ کھا گیا!

ایک نہیں دو نہیں پوری کی پوری سیاسی قیادت، انتخابات سے پہلے مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والے حکومت گرانے کیلئے ایک کیوں ہوجاتے ہیں؟

اقتدار کے مزے لوٹنے اور خواہش رکھنے والے اقلیت میں آتے ہی دیرینہ مخالفین سے اتحاد کیوں کرلیتے ہیں؟ مثبت تعمیری سوچ کیلئے اختلاف اور انتشار کی سیاست کیلئے اتحاد، یہ ہی ہو رہا ہے آج تک پاکستان کی سیاسی تاریخ میں۔

انتخابی جلسوں میں شہباز شریف کے آصف زرداری سے اتحاد نہ کرنے کے دعوے اور پیپلزپارٹی قیادت کی بھی ن لیگ کو ٹھینگا دکھانے کی باتیں، تحریک انصاف کے ایم کیوایم سے دور رہنے کے وعدے اس بار بھی ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔

شہباز آصف میں اتحاد ہوگیا اور مولانا فضل الرحمان  کا اسلامی اتحاد بھی اقتدار کیلئے بے تاب ہوگیا۔ تحریک انصاف نے بھی ایم کیوایم کو گلے لگالیا۔  بلوچستان کے سیاسی مخالفین بھی بغل گیر ہوگئے۔ جلسوں میں مخالفین کو قاتل چور اور کرپٹ کہنے والے عمران خان خود بھی انہی جماعتوں اور رہنماؤں کی مرہون منت وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنا چاہ رہے ہیں۔ سب کچھ اقتدار کیلئے ۔

قلت آب مسئلہ نہیں، بےروزگاری کا حل ڈھونڈنا ہی نہیں، بڑھتی مہنگائی پر کچھ بولنا  نہیں، دہشت گردی پر روایتی بیانات سے آگے بڑھنا نہیں، بجلی کے بحران، مہنگائی کے طوفان سے لے کر کسی بھی عوامی مسئلہ کو سلجھانے کے لئے ملکی سیاسی قیادت آج تک اتنی سنجیدہ نظر نہیں آئی جتنی پچیس جولائی کے عام انتخابات کے صرف ایک ہفتے بعد نظر  آئی۔

تحریک انصاف  کی کامیابی پر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئیں۔ حکومت گرانے کیلئے جداگانہ سیاسی سوچ رکھنے والوں کا مقصد  ایک ہوگیا۔ ملک کی ستر سالہ تاریخ میں شہریوں کے بنیادی حقوق اور مسائل کے حل کیلئے آج تک ایک بھی اے پی سی   منعقد نہ کرنے والوں نے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی ایک ہفتے میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کر کے بتا دیا تبدیلی نہیں آنے کی۔

ملک میں قلت آب کے بڑھتےہوئے سنگین مسئلہ پر سیاسی قیادت کی بجائے عدلیہ نے ایکشن لیا۔  چیف جسٹس نے ڈیم کی تعمیر کیلئے چندہ مہم شروع کردی۔ شعبہ تعلیم کی بہتری کیلئے بھی عدلیہ نے ہی عملی قدم اٹھایا۔ مہنگائی کے جن پر قابو پانے اور غیرمعیاری مضر صحت اشیائے خوردونوش پر قدغن لگانے کے لئے بھی سپریم کورٹ ایکشن لے رہاہے۔

ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے صرف  کرسی کے مزے لینے تک کیوں محدود ہیں؟ پنڈال بھرنے کیلئے کئے جانے والے اخراجات کے بجائے سیاسی قائدین اگر غریبوں کا پیٹ بھردیں، تن ڈھانپ دیں، تعلیم دے دیں تو اقتدار کیلئےجلسوں کی ضرورت رہے نہ انتخابات کے بعد تور جوڑ کی سیاست کی۔

دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں عوام نے تو تبدیلی کا بگل بجاتے ہوئے قرعہ نئی قیادت کے نام نکال دیا  لیکن اقلیت میں جانے والی بڑی سیاسی جماعتوں کا رویہ آج بھی  روایتی ہے۔ انتشاری سیاست کیلئے تو دشمن کے دشمن کو دوست بنالیں گے لیکن بنیادی مسائل کے حل کیلئے کبھی تعمیری سیاست کے حصہ دار نہیں بنیں گے۔

اپوزیشن نے ہمیشہ  برسراقتدار جماعت کی ٹانگیں کھینچیں اور ارباب اختیار نے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔ اس مرتبہ ایسے آثار پہلے سے زیادہ واضح ہیں، اس لئے کہتا ہوں مان لو تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ سیاستدان عوام کی بھلائی کے لئے نہیں، اقتدار کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔



اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.