لیاری میں تاریکی کے بعد روشنی

Lyari Literary Festival


تحریر: امجد بلیدی

وزیراعظم کی امریکہ یاترا کے پیش نظر اس میلے کے بعض ایونٹ سے غیر حاضر رہا لیکن جن ڈسکشنز اور ایونٹ میں شرکت کی ان سے مستفید بھی ہوا۔ اس نفع اور نقصان میں ہی آج ان کمزور ہاتھوں نے عرصے بعد قلم سنبھالا ہے اور اس تحریر کو لکھنے کی طاقت دی ہے۔

لیاری اور کراچی کے موضوع پر گل حسن کلمتی صاحب جب بولتے ہیں دل کرتا ہے کہ بس ان کو سنتے جائیں۔ گل حسن کلمتی، رمضان بلوچ ، لالہ فقیر محمد جب اس موضوع پر محو گفتگو تھے تو ہم اپنے اردو کے روح رواں سر شبیر حسین  بلوچ کے برابر کی نشست پر براجمان ہوئے۔ اس وقت رمضان بلوچ صاحب کی بات جاری تھی اور وہ ضیاء دور کے کچھ تلخ حقائق بیان کررہے تھے۔

اس موقع پر بحث کے میزبان حنیف دلمراد نے گل حسن کلمتی سے سوال کیا تو انہوں نے جواب کچھ یوں دیا ،لیاری کو ہم اس شہر کی ماں اس لئے کہتے ہیں کہ پہلے یہ شہر کھڈا مارکیٹ، نیاآباد سے مزار قائد تک  آباد تھا جب کہ باقی علاقے شہر سے باہر تھے کوئی حب کا حصہ تھا تو کوئی سندھ کا،  اصل شہر ہی لیاری سے شروع ہوا ہے تو ہم اسے ماں کیوں نہ کہیں۔

بحث اختتام پذیر ہوئی تو اسٹالز کا رخ کیا،جہاں کہیں کتابوں کا ڈھیر لگا تھا تو کہیں ثقافت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے کسی اسٹال پر مصوری کے شاہکار تھے تو کہیں شیشوں میں قید سندھ دھرتی میں زندگی کی جھلکیاں نظر آرہی تھیں جبکہ اس گلی میں  دونوں طرف کپڑے کی دیواروں پر لیاری کے روشن چہروں سے آویزاں  پورٹریٹ مصور کی محنت کا صلہ بروقت ادا کرنے کا مشورہ دے رہی تھی۔

بلوچی کڑھائی والے پوشاک میں طلباء کی چہل پہل جہاں ثقافت سے روشناس کرارہی تھی تو وہیں بعض نوجوانوں کے ہئیر اسٹائلز عالمی فٹبال کھلاڑیوں کی یاد دلارہی تھے۔

لیاری کی خوبصورتی یہاں بسنے والے لوگوں سے ہے جو زندہ دل بھی ہیں اور صابر بھی۔ ان ہی لوگوں کی زندہ دلی اور صبر نے لیاری لٹریچر فیسٹیول  کی صورت لیاری کو آج ایک بیش قیمتی اور تاریخی تحفے سے نوازا ہے۔  

لیاری میں بےنظیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اختر بلوچ،بانک پروین ناز ،سعدیہ بلوچ ،اویس رمضان،ناز بارکزئی، فہیم شاد اور جو جو اس فیسٹیول کے انعقاد میں حصہ دار تھے بلاشبہ انہوں نے اپنی مٹی کا فرض ادا کردیا ہے جس کیلئے یہ تمام افراد مبارکباد کے مستحق ہیں۔

لیاری میں رنگا رنگ ادبی میلے کے انعقاد نے جہاں علاقے کے نوجوانوں میں ایک شعور بیدار کیا ہے تو وہیں یہاں علم و ادب کے کئی نئے باب کھولنے میں بھی یہ فیسٹیول کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔





اس تحریر کے مصنف امجد بلیدی منجھے ہوئے صحافی ہیں جن کے کئی اخبارات و جرائد میں کالم اور بلاگ شایع ہوتے ہیں۔ وہ ایک ٹی وی چینل سے منسلک ہیں جہاں وہ صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دے  رہے ہیں۔ امجد بلیدی سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.