کراچی پولیس یا قاتل پولیس؟



 کراچی پولیس کا مقابلہ ملزمان سے ہوتا ہے لیکن گولیوں کی زد میں معصوم شہری آجاتے ہیں ۔ کراچی پولیس کی فائرنگ سےدو سال کے دوران بچوں سمیت آٹھ معصوم شہری جاں بحق ہوئے۔ لواحقین ابھی تک انصاف کے لیے دہائیاں دے رہے ہیں ۔پولیس فائرنگ سے نہتے شہریوں کی ہلاکت کیا معمول بن گیا ہے؟

رواں سال چھ اپریل کو قائد آباد میں پولیس اور منشیات فروشوں کے درمیان مقابلہ ہوا ، پولیس کی گولیاں لگنے سے بارہ سالہ سجاد جاں بحق ہوا ۔تیئس فروری کو نیوکراچی انڈہ موڑ پر پولیس مقابلے کی زد میں آنے والی میڈیکل کی طالبہ نمرہ کی جان چلی گئی ۔تیرہ اگست دو ہزار اٹھارہ کو ڈیفنس میں پولیس اور اسٹریٹ کرمنلز آمنے سامنے آئے، پولیس کی گولیوں نے گاڑی میں بیٹھی ننھی امل کی زندگی کا چراغ گل کردیا ، اس ہائی پروفائل کیس میں تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ پولیس نے تربیت کے فقدان کو تسلیم کرلیا، بغیر تربیت کے پولیس کی جانب سے بھاری اسلحے کا استعمال کیا گیا۔

 یکم اگست دو ہزار اٹھارہ کو نیوکراچی میں پولیس مقابلہ ہوا ،رکشے میں بیٹھا پچپن سالہ شہری نفیس جاں بحق ہوا ۔  بیس جنوری دو ہزار اٹھارہ کو شارع فیصل پر پولیس نے رکشے پر فائرنگ کی جس سے مقصود لقمہ اجل بن گیا ۔کراچی پولیس کو احکامات دیے گئے کہ مصروف شاہراہوں پر ملزمان کی موجودگی میں فائرنگ کا تبادلہ نہ کریں ، بڑے ہتھیاروں کی جگہ چھوٹے ہتھیار رکھیں ۔لیکن   پولیس کسی کی کہاں سنتی ہے۔ بے گناہوں کی ہلاکت پر جب تک مثال قائم نہیں ہوگی ، بے گناہ، پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.