سب امید سے ہیں


Sindh Chief Minister Syed Murad Ali Shah


تحریر: شاہد انجم

جنگل میں نابت بجنے کی آواز آئی تو تمام جانوروں کے ہوش آڑ گئے، اپنے اپنے گھروندوں سے گھبرا کر باہر نکلے اور ایک دوسرے سے یہ معلوم کر رہے تھے کہ ایسا کیا ہو گیا ہے۔

ابھی یہ چہ میگوئیاں چل ہی رہی تھیں اور یہ معلوم کیا جا رہا تھا کہ اتنی تیز آواز میں یہ جو نابت بجی ہے اس کا مقصد کیا ہو سکتا ہے کہ اچانک ایک بندر دوڑتا ہوا نظر آیا جو یہ پیغام دے رہا تھا کہ بادشاہ سلامت کی طرف سے بلاوا آیا ہے کہ کل عدالت لگے گی اور تمام جانور اپنے اپنے ریکارڈ کے ساتھ حاضر  ہوں جس پر جنگل کے تمام جانور رات بھر سوئے نہیں اور دوسرے روز کی تیاری کرنے لگے تاکہ بادشاہ سلامت کو اپناا پنا نکتہ نظر پیش کر سکیں۔

اگلی صبح تمام جانور جب بادشاہ سلامت کی عدالت میں پیش ہوئے تو معلوم ہوا کہ ملکہ وقت کی بہت بے حرمتی ہوئی ہے اور یہ سب دھوکہ دہی ہے لہذا اب یہ معلوم کرنا ہے کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مکمل چھان بین کی جائے۔

جنگل میں بسنے والے ہر نسل کے جانوروں نے اپنے اپنے نامہ اعمال کے ساتھ جب حاضری دی تو ان کا ریکارڈ جمع کرلیا گیا تاکہ ان کے ماضی سے معلوم ہوسکے کہ یہ کس کردار کا مالک ہے اور حاکم وقت سے کتنا وفادار ہے ۔ تمام ریکارڈ جمع کرانے کے بعد سب جانور عدالت کے باہر کھڑے ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے استفسار کر رہے تھے کہ اس میں کون ملوث ہو سکتا  ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو کہتے سنائی دے رہا تھا کہ شک تو ہم پر بھی کیا جا رہا ہے۔

یہ کہانی سن کر مجھے اس وقت صوبہ سندھ میں محکمہ پولیس کی حالت  بھی کچھ اس سے مختلف نہیں لگ رہی۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی طرف سے سندھ پولیس کے سر براہ کی چھوٹی موٹی باتوں پر توہین کرنا اور اسے نیچا دکھانے کے لیے جملوں کا استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں رہی لہذا اسے ماحول کا فائدہ اٹھانے کے لیے اس وقت سندھ پولیس میں موجود ان ہی افسران کی حاکم وقت سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور ہر کسی سے اس کو ریکارڈ کے ساتھ بھی طلب کیا جا رہا ہے خاص طور پر گزشتہ دنوں موجودہ آئی جی سندھ کی 22گریڈ میں ترقی کے بعد ملاقاتوں میں مزید شدت آگئی ہے۔

اس وقت گریڈ 21 کے تمام افسران اپنا نامہ اعمال جمع کراچکے ہیں جس کے بعد چہ میگوئیاں چل رہی ہیں اور ایک دوسرے سے استفسار کیا جارہا ہے کہ کیا ہوا آپ تو حاضر ہوئے تھے جس کا جواب کچھ اس طرح سے مل رہا ہے کہ شک توہم پر بھی کیا جا رہا ہے۔

اب یہ تو وقت بتائے گا کہ اس معاملے میں کون کس طرح اور کس حد تک معیار پر پورا اترتا ہے اور وہ کون ہوگا جس پر کیا جانے والا شک یقین میں بدلے گا اور یہ سمجھنے بھی آسانی ہوجائے گی کہ محکمہ کے دیگر افسران جو اس وقت چوراہے پر کھڑے ہیں انہیں کہاں ہونا ہے۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.