39ارب کس کے ہیں؟ جماعت اسلامی نے وضاحت مانگ لی



حکومت پاکستان، برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور چیئرمین بحریہ ٹاؤن کے درمیان سیٹلمنٹ کےتحت  پاکستان کو ملنے والے تقریبا انتالیس ارب روپے کس کی ملکیت ہے؟  حکومت تاحال تسلی بخش جواب نہ دے سکی۔ جماعت اسلامی  خیبرپختونخوا کے امیر سینیٹر  مشتاق احمد خان  کہتے ہیں ’’   اگر  ملک ریاض سے برطانیہ میں منی لانڈرنگ کی رقم واگزار کراکر  براہ راست سپریم کورٹ میں جمع ہوئی ہے اور  اس پر حکومت پاکستان کا حق ہے تو کوئی مضائقہ نہیں  اگر چہ ایسا ہونا نہیں چاہیئے  کہ کسی دوسرے ملک سے رقم براہ راست سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے لیکن اگر یہ رقم ملک ریاض کے ذمہ واجب الادا 460ارب  کی قسط کے طور پر جمع کرائی گئی ہے تو حکومت نے یہ رقم برطانیہ سے واپس لاکر عملاً  ملک ریاض کے حوالے کردی ہے ‘‘۔

سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ’’ حکومت کی طرف سے یہ وضاحت آنا ضروری ہے کہ   سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع اس رقم پر اب بھی ریاست کا حق ہے یا یہ ملک ریاض  کا بوجھ ہلکا کیا گیا ہے‘‘۔

واضح رہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ’’  190 ملین پاؤنڈ میں سے 140 ملین پاؤنڈ رقم سپریم کورٹ آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوچکی ہے  حکومت سپریم کورٹ سے درخواست کرے گی کہ رقم وفاق کو دی جائے‘‘ ۔



 تین دسمبر کو جب برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پریس ریلیز جاری  کی تو شہزاد اکبر نے اس دن  دعویٰ کیا تھا کہ یہ رقم براہ راست حکومت پاکستان کو ملے گی۔

   اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ اگر یہ رقم حکومت کو ملنی ہے تو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں کیوں جمع  کرائی گئی اور کس نے جمع کرائی؟   اگر یہ منی لانڈرنگ کی رقم ہے اور برطانیہ میں سیٹلمنٹ کے تحت پاکستان کو ملنی ہے تو سپریم کورٹ میں کیوں جمع کرائی گئی؟  کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت نے ملک ریاض  کا بوجھ ہلکا کیا ہو ۔

  سپریم کورٹ اور ملک ریاض کے درمیان بحریہ ٹاؤن کراچی کی اراضی کی الاٹمنٹ کے معاملے پر ایک سیٹلمنٹ ہوئی تھی جس کے تحت ملک ریاض کو ساڑھے سات سال کے دوران چار سو ساٹھ ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کرانے ہیں، بدلے میں نیب بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق ملک ریاض کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کرے گا، ملک ریاض معاہدے کے تحت مذکورہ رقم مرحلہ وار سپریم کورٹ میں جمع کروا رہے ہیں۔ کیا حکومت نے برطانیہ سے رقم وصول کی اور ملک ریاض کی طرف سے قسط سپریم کورٹ  میں جمع کرادی؟  باالفاظ دیگر  رقم واپس پاکستان آتے قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے ملک ریاض کو واپس کردی گئی؟

   واضح رہے کہ  برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق پاکستان کی سپریم کورٹ کے رجسٹرار عارف ارباب نے جمعرات کو  بتایا کہ نیشنل بینک سے انہیں یہ پیغام ملا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں پیسہ جمع کرانا چاہتے ہیں جو ملک ریاض سے 460 بلین روپے کی ریکوری سے متعلق کھولا گیا تھا۔ رجسٹرار کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانیہ کے مقدمے سے سپریم کورٹ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ’’ہم صرف اپنے فیصلے کی روشنی میں بحریہ ٹاؤن سے قسطیں وصول کر رہے ہیں‘۔ب رطانیہ سے وصول ہونے والی رقم کو اگر سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے معاہد ہ کی مد میں ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا اور حکومت نے اسے مان لیا تو یہ دراصل اہل پاکستان کو  39 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔اس معاملے پر   حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں اور  نیوز چینلز  کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.