پولیس موبائل وینز کا گشت، افسران کی تحقیقات ہوں تو کیا ہو؟


Police mobile vans in Karachi not getting enough fuel for patrolling


تحریر : شاہد انجم

ماڑی سے اندر داخل ہوا تو چند اہلکاروں نے مجھے میرا نام لے کر سلام کیا اور جواب ملنے پر کہنے لگے کہ بہت دنوں کے بعد آئے ہیں۔ لگتا ہے کہ کوئی قریبی دوست جیل کی ہوا کھانے آیا ہے، آپ کے ہاتھ پر جیل میں داخل ہونے والے افراد کی مہر ہم نے کبھی بھی اس لئے نہیں لگائی کہ ہم آپ کو شکل و صورت سے اچھی طرح جانتے ہیں۔

صاحب اس وقت سیٹ پر موجود نہیں، چھوٹے صاحب سے اگر ملنا ہے تو ان کا دروازہ کھلا ہے ۔اور بڑے صاحب کا آپ کو انتظار کرنا پڑے گا وہ جیل کی بیرکوں کے معائنہ پر ہیں کچھ شکایات تھیں ،اس لئے ابھی آجائیں گے۔


دروازے کی طرف رخ کیا تو اچانک آواز آئی صاحب آپ نے پہچانا،میں سمجھا کہ کسی اور کو آواز دی ہوگی، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے مخاطب تھا، میں نے پلٹ کر اسے دیکھا اور تھوڑا ذہن پر زور دیا تو معلوم ہوا کہ یہ جو قیدی کی وردی میں ہے اسے جانتا بھی ہوں اور میری اس سے ملاقات بھی رہی ہے۔

 میں اس کی طرف بڑھا تو اس کی آنکھیں نم تھیں ،معلوم کیا کہ کس جرم میں آئے ہو اور کب سے جیل میں ہو تو اس نے بتایا کہ آج ڈھائی ماہ ہوچکے ہیں اور مجھ پر الزام تھا کہ میں ڈکیتی کی نیت سے اپنی اس موٹر سائیکل پر گھوم رہا تھا جس کی چین بھی ہر تھوڑی دیر کے بعد اتر جاتی تھی۔ 

اس نے بتایا کہ بے روزگار تھا اور ایک اسٹیٹ ایجنسی پر ملازمت کے لئے جا رہا تھا، میں بہت چلایا اور بار بار پولیس اہلکاروں سے کہتا رہا کہ آپ میرا ماضی کا ریکارڈ دیکھ لیں، میرے والد ٹیچر تھے اور میں بھی بی اے پاس ہوں، بے روزگار ہوں ملازمت کی تلاش کے لئے جارہا ہوں، میری کسی بھی بات کو سنا نہیں گیا بلکہ روایتی طور پر میری خاطر تواضع کرتے ہوئے مجھے پولیس اسٹیشن لے جا کر لاک اپ  کردیا اور دوسرے روز جبکہ میرے اہل خانہ کو بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں مجھے بطور ڈاکو عدالت کے روپ میں پیش کیا گیا۔

عدالت نے مجھے جیل بھیجنے کا حکم دے دیا ،بہر حال میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ میں پولیس کے کسی اعلیٰ افسر سے بات کرتا ہوں تاکہ انہیں حقائق معلوم ہوجائیں اور آپ کی جان چھوٹ جائے۔

جیل کے اس نوجوان کی آپ بیتی سنی اور مجھے اس کا زیادہ افسوس اس لئے نہیں ہوا کہ چند روز قبل مجھے معلوم ہوا کہ پولیس کی گاڑیوں میں جو پیٹرول کا استعمال ہے وہ زیادہ ظاہر کیا جارہا ہے اور گاڑی کے میٹر کو دیکھتے ہوئے یہ پتہ چلتا ہے کہ گاڑی نے اتنا سفر نہیں کیا لہٰذا یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے،جس پر تحقیقات شروع کردی گئیں اور ہر ضلع کا ایس ایس پی اس کی مکمل تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کا پابند کیا گیا۔

ایس ایس پی صاحبان کی طرف سے ہر تھانے کے ایس ایچ او سے معلومات حاصل کی گئیں اور ان پر الزام عائد کیا جانے لگا کہ گاڑیوں کی مسافت کو مد نظر رکھتے ہو ئے پیٹرول کا استعمال زیادہ ہوا ہے ۔لہٰذا اس پر آپ کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی،افسوس کی بات یہ تھی کہ پولیس موبائل کو دیئے جانے والا پیٹرول صرف گشت کو سامنے رکھتے ہو ئے تو لا گیا لیکن کسی افسر میں اخلاقی جرات نہیں کہ پوچھ سکے کہ چیکنگ کے دوران ناکوں پر کئی کئی گھنٹے کھڑی رہنے والی موبائیلوں میں پٹرول خرچ کیسے ہوجاتا ہے۔؟؟؟

اعلی افسران شاید اس حقیقت کی طرف جانا ہی نہیں چاہتے اور اگر مذکورہ افسران کے زیر استعمال گاڑیوں کی اس طرح سے تحقیقات کی جائیں تو ہوسکتا ہےکہ دفتر کی مصروفیات سے زیادہ شاپنگ سینٹروں اور رشتہ داروں اور ملنے والوں کے گھروں کا  گشت نکلے۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.