رسہ کشی


Rift between IG Sindh Kaleem Imam and SIndh Government continues


تحریر : شاہد انجم

دلاور اثر و رسوخ رکھنے والا شخص تھا ،اس نے بچپن ہی سے ایسے حالات کا سامنا کیا تھا جسے وہ اپنی زندگی کے امتحان کا ایک پرچہ سمجھتا آیا تھا اور ہر دور میں جب بھی اس پر کوئی الزام جھوٹا یا سچا لگایا گیا اس نے مسکراتے ہوئے اپنے حریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ایسا وہ کئی بار کرچکا ہے لہذا اسے کوئی نہ تو حیران کرسکتا ہے اور نہ پریشان۔ قانونی داؤ پیچ بھی خوب جانتا تھا اور اس کے حلقہ میں کئی نامور  قانون دان بھی شامل تھے۔


دلاور ایک روز محل نما حویلی میں بیٹھا ہوا دوستوں سے گفتگو کررہا تھا  اور کہہ رہا تھا کہ کچھ ایسی پریشانی لاحق ہوگئی ہے جسے ہم نے خود ہی پیدا کیا اور اب اس میں آئے روز  اضافہ ہوتا دیکھ رہے ہیں، ہمارے آباؤ اجداد میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ہماری جاگیر سے لوگ آئیں اور وہ کسی بھی کردار کے ہوں آخر ہمیں ان کو سنبھالنا ہے ،اس لیے وہ ہماری عزت کی خاطر ہر عہدے کو اختیار کرکے اس میں اضافہ کرتے ہیں ،دلاور نے بات کرتے ہوئے ایک لمبی سانس لی اور پھر کچھ دیرخاموش ہوگیا۔

محفل میں بیٹھے دیگر لوگ دلاور کی خاموشی کو مایوسی سمجھ رہے تھے اور سوال کیا جانے لگا تھاکہ آخر ایسی کیا مصیبت آن پڑی ہے جو ہمارا سردار اس قدر پریشان ہوگیا ہے؟

کئی دن تک کسی کو جرات نہ ہوئی کہ دلاور سے پریشانی کہ وجہ پوچھ لے پر ایک روز دلاور خان ہی پھٹ پڑا۔

 اس نے اپنے چند قریبی دوستوں کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ میری مدد کے لیے کھڑے ہو جائیں اس لئے میں اپنے گھر سے بہت پریشان ہوں اور میری اہلیہ تک میری بات سننے کو تیار نہیں اور میں جو بھی کہتا  ہوں وہ ٹال مٹول سے کام لیتی ہے ،میں اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ دیگر خاندان اور رشتہ داروں کے سامنے تلخ لہجے میں بات کرکے بھی یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر تم نے اپنے روئیے کو نہ بدلا تو آنے والا وقت ہمیں ایک دوسرے سے دور کردے گا مگر اسے سمجھ نہیں آرہا وہ اپنے  خلوت خانے میں ہر وقت میک اپ کرکے چند اچھی شہرت رکھنے والی خواتین اور مردوں سے ملاقات میں ہی لگی رہتی ہے۔

اب میں اپ لوگوں کی مدد سے یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے آنے والے وقت میں کیا کرنا چاہیئے؟تمام مشیروں نے دلاور سے کچھ وقت مانگا اور جواب دینے کا کہا ،چند روز گزرے تو ودبارہ ایک بیٹھک ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٓآپ کے آنے والے وقت کے لیے یہ سب بہتر نہیں لہذا ہمارا متفقہ فیصلہ ہے کہ آپ ان سے الگ ہوجائیں اور آخر کار دلاور نے یہ بات مان لی اور پھر علیحدگی کا سفر شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

دلاور کی اس کہانی کو پڑھ کر مجھے حکومت سندھ اور آئی جی سندھ میں جاری حالیہ کشیدگی یاد آگئی۔ سرد جنگ تو پچھلے کئی روز سے جاری تھی اور ایک دوسرے کے خلاف کاغذی کارروائی کی جا رہی تھی جبکہ ملاقاتوں میں تیسرے فریق کے سامنے شاید اس کا اظہار نہیں کیا جا رہا تھا اور اب چند روز سے اس تنازع میں شدت آگئی اور ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔

حکومت سندھ کی طرف سے آئی جی سندھ کلیم امام کو نا اہل قرار دینے کے لیے الزامات داغے گئے جبکہ آئی جی سندھ کے من پسند افسران کی طرف سے حکومتی نمائندوں کو رسہ گیر ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ حقائق کو مد نظر رکھا جائے تو اس لڑائی میں محکمہ پولیس کے وہ افسران جواس تنازع کا حصہ نہیں رہے وہ ایسی صورتحال میں ذاتی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔

حکومت سندھ  آئی جی سندھ کی تعیناتی کے دوران اپنے من پسند افسران کی تعیناتیوں کی سفارش کرتی ہے جوکہ جزوی طور پر مان لی گئیں  اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہوسکااور آئی جی سندھ اپنے من پسند افسران تعینات کرتے رہے دوسری طرف جوکہ اب تصویر پیش کی جا رہی ہے اس میں حال اور مستقبل کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو خسارہ ڈاکٹر کلیم امام کی جھولی میں ہی جائے گا، انہوں نے بھی اپنی تعیناتی کے دوران صرف اپنے دفتر کو ہی سجانے میں زیادہ وقت صرف کیا ۔

 وہ گلیمر کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور شاید وہ اسی میں زیادہ خوشی محسوس کرتے رہے جس کا فائدہ آج حکومت سندھ اٹھا رہی ہے  اور اگر سوچیں کہ آپ کی ملازمت کے خاتمے میں ابھی سال باقی ہیں اور جس طرح سے آپ کی کردار کشی کی جارہی ہے اس کا آپ کو مزید نقصان اٹھا نا پڑ سکتا ہے۔  ذراسوچئیے!!!




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.