سوکھا باغ


Coronavirus spread in Pakistan

تحریر: شاہد انجم

میرے قریب نا آنا اور مجھ سے ڈرتے رہنا خواہ آپ کہیں بھی ہوں میں آپ کو دبوچ لوں گا اور اگر میرے بارے میں کسی کو بتایا تو مجھے اس کی اطلاع بھی ہوگی، تمھاری خیر نہیں۔

میں تمھیں رات کے اندھیرے میں تو کیا دن کے اجالے میں بھی نظر نہیں آؤں گا پر اتنا ضرور کہتا چلوں کہ میرے خوف کا عالم یہ ہے کہ میں ذہنی مریض بنا دوں گا نہ تو تم مجھ سے جسمانی طور پر لڑ سکتے ہو اور نہ ہی اس کے لیے اللہ پاک کی مدد کے علاوہ کوئی تم کو بچا سکتا ہے۔ میرے زہر کی طاقت بہت زیادہ ہے اور میں اپنی مرضی سے جیتا ہوں، تم صرف میری آنکھ سے اوجھل ہو کر رہ سکتے ہو۔

یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو ستر کی دہائی میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے لیاقت آباد لالوکھیت نمبر8 میں رہتا تھا۔ قیصر غنڈے کے نام سے شہرت رکھنے والا عام انسانوں سے زیادہ طاقتور تھا۔ محلے کے لوگ تو کجا دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگ بھی اس کا نام سن کر کانپتے تھے۔

 ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا اسی لئے لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی اتنا بگڑ چکا تھا کہ اس کی جوانی آنے تک سدھرنے کے تمام راستے بند ہوچکے تھے۔ قیصر چوبیس سال کی عمر میں علاقے کے بد نام زمانہ افراد کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا اور اب تو اسے اتنا بھی ہوش نہیں تھا کہ اس کے بوڑھے ماں باپ بھی اس سے دیکھ کر خوف کھاتے تھے کہ زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو قیصر کو بری لگے اور  ضعیفی کا لحاظ بھی بھول جائے۔

اس وقت کے سیاسی شعور رکھنے والے بعض افراد  قیصر کو اپنا دوست اس لئے مانتے تھے کہ ان کے پاس سیاسی عزائم تھے جو کہ وہ قیصر کے بھرم پر پورا کرنا چاہتے تھے۔ قیصر کے گھر کے قریب ایک پارک تھا جس میں غریبوں نے جھگیاں ڈال رکھی تھیں۔  اچانک ایک روز  قیصر کو کسی  بات پر غصہ آیا اور اس نے  جھگیوں میں رہنے والے بعض افراد کو قتل کرنے کے بعد جھگیوں کو آگ لگا دی جس  کے نتیجے میں تمام لوگ بے گھر ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کی جانیں بھی اس قہر سے موت کے منہ میں چلی گئیں۔

اس واقعہ کے بارے میں پولیس کو مطلع کیا گیا مگر اس وقت کے تھانیدار صادق حسین شاہ کو بھی معلوم تھا کہ سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے قیصرکے خلاف کوئی کارروائی ہونا فی الوقت مشکل ہی نہیں تقریبا ناممکن ہے لہذا قیصر کے زہر میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب وہ خود کو اس زمین پر سب سے طاقتور انسان سمجھنے لگا شاید اسے اب یہ بھی یاد نہیں رہا کہ تکبر اللہ کو پسند نہیں ہے۔

ایک روز وہ اپنی گلی کے اختتام پر کھڑا تھا جہاں سے آٹھویں کلاس کی ایک طالبہ اسکول جا رہی تھی جسے قیصر نے روکا اور اس کی بے حرمتی کی کوشش کی  طالبہ کا بھائی جس کی عمر تقریبا اس وقت چودہ سال ہوگی، وہ بھی وہاں ان پہنچا اور اس سے برداشت نہ ہوا۔  وہ لڑکا دوڑتا ہوا گھرگیا اور چھری لاکر قیصر کے پیٹ میں گھونپ دی۔ قیصر کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

لڑکے نے قیصر پر چھری کے دو وار کیئے اور بھاگ گیا قیصر کے زخمی ہونے کی اطلاع اس کی والدہ کو ملی تو وہ بھی وہاں پہنچی۔ خفیہ افراد نے قیصر کو اسپتال لے جانے کی کوشش کی جس پر اس کی والدہ نے پولیس تک کو منع کردیا کہ اسے اسپتال نہ لے جایا جائے اور اس برائی کو  میں خود ختم ہوتے دیکھنا چاہتی ہوں اس لئے کہ میرے گھر کے پاس جو گراؤنڈ آباد تھا جس میں سینکڑوں لوگ آباد تھے آج ویران پڑا ہے  اور لوگ اسے  اب سوکھا باغ کے نام سے پکارتے ہیں۔

قیصر کی یہ کہانی سن کر مجھے موجودہ حالات بھی نظر آرہے ہیں جب ایک بین الاقوامی وباء کرونا انسانوں کی روزانہ کی بنیاد پر زندگیاں نگل رہی ہے اور اس سے بچاؤ کیلئے حکومت سیکیورٹی اداروں کی طرف سے بار بار عوام سے درخواست کی جا رہی ہے کہ  خدارا اس سے بچنے کیلئے احتیاط کریں۔  اپنے گھروں میں وقت گزاریں اور میل جول کم سے کم کریں تاکہ کرونا کا مقابلہ کیا جاڈکے۔ 

افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شاید ہمارے عوام اس کوسنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ میری پرزور اپیل ہے کہ حکومت کی بات پر عمل کریں تاکہ یہ ہرا بھرا باغ سرسبز و شاداب رہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس خطرناک وائرس کی پکڑ میں آجائیں اور اس شہر  یا ملک کو سوکھا باغ کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔

خدارا اپنے بچوں اپنے خاندان اور پیاروں کی زندگی کے لیے چند روز تک خود کو گھروں میں محدود کر لیں۔
ذرا سوچیں تو اسی میں ہماری بھلائی ہے۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.