دھرا معیار

SSP Rizwan Akhtar

تحریر : شاہد انجم

خاندان کے تمام لوگ موجود تھے اور ان کے چہروں سے اندازہ کیا جا سکتا تھا کہ ہر لمحہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے چہروں پر بڑھی ہوئی پریشانی عیاں ہو رہی تھی ہر کوئی ایک دوسرے سے کانا پھوسی کرتے ہوئے دکھائی دے رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ہمارے خاندان میں اس سے قبل کبھی ایسا ہوا نہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو کس طرح سے اتنے بڑے صدمے کو برداشت کیا جائے گا ۔

پپو بھی بار بار اسی کمرے میں جا رہا تھا اور یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر معاملہ ہے کیا  جو کہ دور دراز سے خاندان کے تمام لوگ جمع ہوگئے ہیں آخریہ بات ایسی تھی کہ چھپانے سے چھپ نہیں سکتی تھی  اور اب بڑے تایا کا انتظار تھا جو کہ کسی وجہ سے اس فیصلے میں آنے سے تاخیر کا شکار ہو رہا تھا۔

 آخرکار اس کی آمد کی اطلاع موصول ہوئی تو بات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوگیا آواز آئی کہ فریقین کو بلایا جائے تاکہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نکالا جائے کلثوم اور برکت کمرے میں داخل ہوئے اور سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم کیا گیا کہ آپ دونوں میں جھگڑا کس بات پر شروع ہوا جس پر شوہر کا کہنا تھا کہ میں  اپنے خاندان اور بچوں کے لیے محنت کرتا ہوں تاکہ ان کی آنے والی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو ں اور جو بھی وقت مجھے ملتا ہے وہ میں جسمانی تھکاوٹ کو دور کرنے میں گزار دیتا ہے۔

تین روزقبل میری طبیعت خراب تھی  جس کے باعث میں نے چھٹی کی اور سوچا کہ حالات کو جاننے کے لیے ٹیلی ویژن  پر خبریں دیکھنے لگا تو پتہ چلا کہ وہ تو خراب پڑا ہے  میرے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بچوں نے ٹیلی ویژن خراب کر دیا ہے اور کئی روز سے بند پڑا ہے میں نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی اور شام میں بچوں سے ان کی تعلیم کے بارے میں معلوم کیا تو مجھے اتنی مایوسی ہوئی جس پر میں نے اپنی اہلیہ کلثوم سے معلوم کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ یہ ٹیلی ویژن نے بچے خراب کر دیے ہیں اور اگر یہ گھر میں نہ ہو تو شاید ہمارے بچے اچھی تعلیم حاصل کر لیں۔

 اہلیہ کی یہ دونوں باتیں سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں گھر سے باہر تھا اور گھر کے اندرونی معاملات کی تمام تر ذمہ داری میری اہلیہ پر ہے جس کے جواب میں ان کی طرف سے یہ جواب ملا ہے کہ آپ کو یہ سب کرنا تھا میں اس میں کیا کر سکتی ہو ں میں نے تو کئی بار آپ کو بتایا آپ نے کیا کیا ۔

بہرحال فریقین کی بات سننے کے بعد خاندان کے بڑوں کی طرف سے یہ فیصلہ سنایا گیا کہ اس میں زیادہ تر ذمہ داری والدہ کی بنتی ہے جو کہ ہر وقت گھر پر بچوں کے ساتھ ہوتی ہے لہذا اسے چاہئے کہ وہ حالات کو سازگار بنائے تاکہ یہ رنجشیں ختم ہو ں۔

کلثوم نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے  جواب دیا کہ بچے میرے کنٹرول میں نہیں ہیں لہذا میں ان کی ذمہ داری نہیں لے سکتی جس پر شوہر کی طرف سے یہ کہا جانے لگاکہ آپ ایسا نہیں کر سکتی تو پھر آپ کو میرے ساتھ زندگی گزارنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے اور آخرکار بات طلاق پر جاکر ختم ہوگی۔  اس کے بعد بیوی کے رشتہ دار اور دیگر کی طرف سے مختلف الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی جو کہ تاحال جاری ہے۔

 کلثوم اور برکت کی یہ کہانی کو میں نے سنجیدگی سے سنا تو میرا دھیان سندھ پولیس کے چند روز قبل ہونے والی حکومت سندھ سے نا اتفاقی پر پڑا جس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھلا گیا اور ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی طرف سے ایک خط کے ذریعہ صوبائی وزیر کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ۔

اس خط کو جب سے غور سے پڑھا تو اس میں سنگین الزامات کی بوچھاڑ کی گئی تھی جس پر مجھے بہت حیرت ہوئی اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ ایس ایس پی صاحب کی طرف سے جو خط لکھا گیا ہے یہ خط اس تناظر میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔ کیا آپ نے محکمہ پولیس میں آمد کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ غیرجانبدار ہوکر کام کریں گے۔ اس خط سے قبل آپ یہ تو سوچتے کہ آپ اس ضلع کے سب سے سینیئر افسر کے طور پر تعینات ہیں تو پھر آپ کس کو یہ خط لکھ رہے ہیں؟

 اس خط میں آپ نے اپنی نااہلی کا جو ثبوت دیا ہے کیا اس صوبائی وزیر کے خلاف کارروائی سے قبل آپ کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی ہوئی اور اگر نہیں ہوئی تو اس کی کیا وجہ تھی؟  آپ تمام وسائل کے ساتھ وہاں موجود ہیں آپ کو خود یہ کارروائی کر کے اعلی افسران اور حکومت سندھ کو بتانا چاہیے تھا اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ کی کیا مجبوری تھی؟ یہ آپ نے کس کے کہنے پر ایسا کیا اس کی چھان بین ہونا بہت ضروری ہے۔

بہر حال اس وقت کے سندھ پولیس کے سربراہ کی اگر آپ کو   آشیرواد  حاصل تھی اور وہ آپ کا تبادلہ تک نہ کر سکے تو اب نئے سربراہ کی طرف سے اگر اس پر کوئی کارروائی کی گئی ہے تو اب شور کس بات کا ہے اور شاید آپ کے علاوہ بھی کئی ایسے افسر سندھ میں اب بھی موجود ہیں جو کہ خود کو ہر قانون سے بالاتر سمجھ بیٹھے ہیں اور شاید وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے اس بارے میں انہیں سوچنا چاہئے کہ ذمہ داریاں انہیں سونپی گئی ہیں، جنہیں وہ ایمانداری سے نبھائیں، ایسا نہ ہو کہ ٹیلی ویژن نے بچے خراب کر دیئے یا بچوں نے ٹیلی ویژن!  آخرکار یہ گتھی ایک نہ ایک دن توسلجھ جائے  گی، ذرا سوچنے ذرا سوچتے۔




اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.