اب فل کورٹ بن ہی جانا چاہیئے

Full court must be constituted to decide controversial arguments and issues

تحریر: محمدآصف

اب سپریم کورٹ آف پاکستان کا فل کورٹ بن ہی جانا چاہیئے کیوں؟ کیونکہ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادرنے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں جو فیصلے دیکھے گئے ہیں وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے ہیں، ان فیصلوں میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ بارِ ثبوت استغاثہ پر ہے۔ استغاثہ نے ثابت کرنا ہے کہ اثاثوں کا حجم کتنا ہے اور آمدنی کے جائز ذرائع کا حجم بھی بتانا ہے۔  

چیف جسٹس نے نیب کی اپیلوں پر جو ریمارکس دیئے اس سے لگتا ہے کہ ان کا خیال اس کے برعکس ہے، چیف جسٹس شریف خاندان کو ون یونٹ تصور کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ اثاثے کہاں سے آئے یہ انہوں نے بتانا تھا۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث بھی سپریم کورٹ میں عدالتوں کے فیصلوں پر انحصار کررہے تھے۔

اس ساری بحث سے واضح ہوگیا ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں میں کافی تضاد آگیا ہے۔ سپریم کورٹ کو لارجر بنچ بنا کر ان تضادات کو دور کرنا ہوگا، اب وکلاء اور ججوں کے اپنے اپنے دلائل ہوتے ہیں، جو طاقتور ہوتا ہے اس کی بات مانی جاتی ہے حالانکہ وکلاء اور ججوں کی طاقت دلیل میں ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے وکلاء کو سپریم کورٹ کو بتانا چاہئے تھا کہ صرف سزا معطلی کے فیصلے میں کچھ نئی چیزیں نہیں ہوئیں بلکہ اس کیس میں جس طرح جے آئی ٹی بنی، کیس کی مانیٹرنگ ہوئی اور کورٹ کی طرف سے انویسٹی گیشن کی سپرویژن کی گئی وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ انکوائری یا تحقیقات کرنا عدالتی نہیں انتظامی کام ہے، چیف جسٹس کو یہ تمام پہلو بتائے جاتے تو وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اتنے لمبے فیصلے کی وجہ سمجھ سکتے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ چار پانچ صفحات میں ہوجانا چاہئے تھا لیکن ہائیکورٹ کچھ زیادہ محتاط تھی کیونکہ یہاں سپریم کورٹ کی حیثیت فریق کی سی ہوگئی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ اب سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کا مقابلہ چل نکلا ہے، سپریم کورٹ تحقیقات کار بنے گی اور پہلے احتساب عدالت پھر اسلام آباد ہائی کورٹ اس تحقیقات کی اسکروٹنی کرے گی تو عدالتوں کا مقابلہ چل نکلے گا اور عدالتیں خود فریق بن جائیں گی۔

 چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس کہ نواز شریف کا مقدمہ ماتحت عدالت میں نہیں جانا چاہئے سے متعلق عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے strict legality سے باہر نکل کر یہ بات کی ہے، اگر سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جائے گی تو پھر اپیلٹ کورٹ کون سا ہوگا؟ نواز شریف کی سزا معطلی کیخلاف اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ اگر سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو اسے پاناما بنچ کے پانچ جج نہیں سن سکتے وہ مختلف بنچ ہوگا۔(روزنامہ جنگ سات نومبر2018)

دوسری جانب سپریم کورٹ کے جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ سیاستداں رائے دہندگان کے سامنے جوابدہ ہیں، وکلاء اپنے موکلین کے سامنے جوابدہ ہیں کیونکہ وہ سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول نہیں کرتے جبکہ جج ریاست اور عوام کے سامنے بھی جوابدہ ہیں کیونکہ وہ سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرتے ہیں، ججوں سے وابستہ عوام کی توقعات اور امنگوں پر پورا اُترنا ان کی ذمہ داری ہےکیونکہ عوام ان سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ میرٹ پر انصاف کریں گے۔ ججوں کافرض ہے کہ وہ دستیاب شواہد کی بنیاد پر فیصلہ دیں تصورات کی بنیاد پر نہیں۔

یہ بات انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس کے شیخ زید تھیٹر میں "فیوچرآف پاکستان 2018ء"  کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔  انہوں نے کہا کہ جج سنتے زیادہ ہیں وہ ہر طرح کے لوگوں کی رائے سنتے ہیں لیکن بولتے کم ہیں تاکہ وہ منصفانہ سماعت کے بعد انصاف کو یقینی بناسکیں۔انہوں نے کہا کہ کسی ادارے کو مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور اپنے کام پر توجہ دینی چاہئے کیونکہ مقبولیت جانچنے کا بہترین ذریعہ بیلٹ بکس ہے اگر کوئی فرد مقبولیت جانچنا چاہتاہے تو اسے الیکشن میں حصہ لینا چاہئے جس سےاس کی مقبولیت کاپتہ چل جائے گا۔ (روزنامہ جنگ پانچ نومبر 2018)۔

تیسری جانب سابق چیف جسٹس پاکستان (ریٹائرڈجواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ اُردو کا نفاذ نہ کر کے ججز توہین عدالت کر رہے ہیں، ججز اور وکلاء کو خود انگریزی نہیں آتی، فیصلے انگریزی میں لکھنا دستورشکنی ہے، انگریز چلا گیا مگر ان کے اندر سے غلامی نہیں نکل رہی، حکمران طبقہ اور بیورو کریسی انگریزی کے سہارے خود کو برتر ثابت کرتے ہیں ورنہ اندر سے سب کھوکھلے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزادجموں وکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا دعوے سے کہتا ہوں کہ ہمارے ججز اور وکلا کو انگریزی نہیں آتی اور نہ ہی انگریزی پر کبھی عبور ہو سکتاہے ،وہ صرف اس لیے فیصلے سامراج کی زبان میں لکھتے ہیں کہ عوام کو سمجھ نہ آئیں۔ دفاتر میں انگریزی کا چلن صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے۔ حکمران طبقہ،بیوروکریسی انگریزی زبان کے سہارے خود کو برتر شمار کروا رہی ہے ۔

سابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آٹھ ستمبر دو ہزار پندرہ کو فیصلہ صادرکیا تھا۔ اب عوام ججز کو باور کروائیں کہ وہ فیصلے پر عمل درآمد نہ کر کے توہین عدالت کر رہے ہیں، اردو زبان کسی بھی فیصلے کی ترسیل کا بہترین ذریعہ ہے، قوم کو ذہنی غلامی سے نکلنا ہو گا۔ (روزنامہ جنگ و دیگر اخبارات بائیس اکتوبر 2018)۔

یہ تمام قانونی نکات ہیں اور نہایت قابل توجہ لگتے ہیں ۔ کیا انہیں طے کرنے کے لئے اب سپریم کورٹ آف پاکستان کا فل کورٹ نہیں بن جانا چاہیئے؟



اس تحریر کے مصنف محمدآصف، عامل صحافی ہیں۔ یہ مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔  ان سے رابطہ کرنے کے لئے ہمیں ای میل کیجئے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس کہ نواز شریف کا مقدمہ ماتحت عدالت میں نہیں جانا چاہئے سے متعلق عرفان قادر کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے strict legality سے باہر نکل کر یہ بات کی ہے، اگر سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ بن جائے گی تو پھر اپیلٹ کورٹ کون سا ہوگا؟ نواز شریف کی سزا معطلی کیخلاف اپیل پر اسلام آباد ہائیکورٹ جو بھی فیصلہ کرتی ہے وہ اگر سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو اسے پاناما بنچ کے پانچ جج نہیں سن سکتے وہ مختلف بنچ ہوگا۔(روزنامہ جنگ سات نومبر2018)

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.