جون ایلیا ۔ اقدار شکن اور باغی شاعر


تحریر: کامران مغل

جون ایلیا کو اقدار شکن اور باغی شاعر کہا جاتا ہے، آج وہ دنیا میں نہیں لیکن ان کی یادیں زندہ ہیں، انہیں دنیا سے گزرے سولہ سال بیت چکے ہیں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ منفرد اور چونکا دینے والے لہجے کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ 

حلیہ اور طرزِ زندگی کو انہوں نے اپنے فن کی شکل میں ایسے پیش کیا کہ شخص اور شاعر مل گئے، جس طرح کا باغیانہ رویہ انہوں نے دنیا کے لئے اپنایا ویسا ہی محبوب کے لئے بھی اختیارکرلیا۔

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی!!

محبوب کے ساتھ جون ایلیا کا بے باکانہ رویہ اردو شاعری میں بے حد نرالا ہے جو بعض اوقات جارحیت میں بدل جاتا ہے۔

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جون ایلیا کے موضوع، مضمون اور انداز اسلوب چونکا دینے والے ہیں۔ انہوں نے جو بے تکلفانہ اور لاگ لپٹ سے پاک انداز محبوب سے اپنا رکھا تھا، وہی انداز دوسرے موضوعات میں بھی برتا ہے۔

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کرنہ گلا چھیل لے کوئی

کہا جاتا ہے جون ایلیا اپنے زمانے سے تقریباً دو سو برس بعد پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب تہذیب رخصت ہو رہی تھی اور فن کی قدر کرنے والے بے سروساماں ہو چلے تھے۔ زمانے کی ترجیحات تبدیل ہو رہی تھیں، لوگ پھول اور خوشبو کی بات کرنے والے کو مجرم ٹھہراتے تھے ایسے میں جون ایلیا کا آنا اور کسی کی پروا نہ کرنا اردو شاعری میں کسی معجزے سے کم نہیں تھا، وہ مخصوص ڈگر پر چلنے کے بجائے دل کی گواہی پر یقین رکھتے تھے۔

جوگزاری نہ جاسکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے بھائی رئیس امروہوی بھی نمایاں شاعر تھے اور انہوں نے جنگ اخبار میں روزانہ قطعہ لکھ کر شہرت حاصل کی۔ جون کے ایک اور بھائی سید محمد تقی تھے جو نامور صحافی گزرے ہیں۔ اس کے علاوہ جون کے بھانجے صادقین تھے، جو ممتاز مصور اور خطاط ہونے کے ساتھ رباعی کے عمدہ شاعر بھی تھے۔ 

جون ایلیا نے امروہے کی گلیوں میں ہوش سنبھالا مگر خود کو زندگی بھر نہ سنبھال پائے۔ وہ مسکان، مجسم حسن اور شراب کے دلدادہ تھے۔ محبوب کی دید کی چاہ میں بے چین رہتے اور محبوب کا درشن ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے، جب کم عمری میں محبت کا پہلا گرم جھونکا ان کے دل کو چُھو کر گزرا تو بے اختیار لکھ دیا۔

چاہ میں اُس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لوسرخی، مرے رخسار کی

جون ایلیا زندگی کی ابتداء سے لے کر خاتمہ تک تلخ تجربات سے لڑتے رہے، جن کی کڑواہٹ، ان کی شاعری اور نثری تحریروں میں بھی ملتی ہے اور وہ جو گفتگو کرتے تھے، اس میں بھی یہ ذائقہ پوری طرح موجود تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’میں ہار چکا ہوں، معاشرے کو اپنی اقدار پہ لانا چاہتا تھا، مگر میں ہارگیا، یہ افلاطون اور کرگس کا معاشرہ نہیں ہے، یہ بونوں کا معاشرہ ہے۔‘‘ 

ان کی شاعری، سماج کا نوحہ تھی۔ جون ایلیا نے منافق معاشرے میں سچ کی سولی پرلٹک کر زندگی گزاری، چیخ و پکار کرتے کرتے خاموشی اختیار کرلی، وہ باہر کی لڑائی کو اپنے اندر کھینچ لائے تھے۔

جون ایلیا کی شاعری ہمارے دل کی آواز لگتی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ"یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمیں اب ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا"۔  ان کی شاعری میں  درد کے نغمے، حالاتِ حاضرہ کا تذکرہ، سماج کا دکھ اور ذات کا کرب بھی پوری طرح موجود تھا۔ 

انہوں نے انسان کی اذیت،معاشرے کے نوحے لکھے، جون ایلیا نے اپنی زندگی میں اگر کوئی روگ پالا بھی تو اس قدر حسین طریقے سے کہ دکھ پھر دکھ نہ رہا۔

بے دلی، کیا یونہی دن گزر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مرجائیں گے

جون فہمی اور جون شناسی کا دور تو ابھی شروع ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی چلے گا، بہت سے دل مفتوح ہوں گے، بغاوت کے کئی علم بلند ہوں گے، یہ شاعری اورنثر پارے ان کے لیے حوصلے کامنشوربنیں گے۔

اپنا دکھ جھیلنا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن کسی دوسرے کا دکھ جھیلنا بہت بڑی بات ہے اور جون ایلیا کے دکھوں کو کوئی سمجھے، تو سمجھ آئے گا کہ وہ کتنے بڑے شاعر اور مفکر تھے۔ مگر یہ کون سمجھے گا ہمیں تو ایک دوسرے کے دکھ سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔

کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے



اس تحریر کے مصنف کامران مغل ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ مختلف ٹی وی چینلز اور دیگر اداروں میں صلاحیتوں کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.