یہ ایجنڈا کس کا ہے؟


تحریر: شاہد انجم

فسادات، قتل وغارت، ہنگامہ آرائی، اشرف المخلوقات کو شاہراہوں پر مارنا، حوا کی بیٹی کی عزت کی پرواہ نہ کرنا، خوف و ہراس کی فضاء میں سانس لینا محال ہوچکا تھا۔  ہر کوئی اپنی اپنی مرضی سے قانون سے کھلواڑ کررہا تھا مگر تخت پر بیٹھے بادشاہ سلامت کو اپنے عیش وعشرت سے فرصت نہیں تھی اور نہ ہی کبھی اس نے اس انارکی کی طرف دیکھا تھا۔

شاید وہ سب جانتے ہوئے بھی کچھ کرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ شاید وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ اگر اس نے کارروائی کے احکامات جاری کیے تو اسے تخت سنبھالنا مشکل نہ ہوجائے، لہذا جیسا چل رہا ہے چلنے دیا جائے۔  

تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد بھی کہ ظلم و زیادتی کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور ان کو روکنا اس کی ذمہ داری میں شامل تھا، بادشاہ کے مشیر اسے مشورہ دیتے رہے کہ آپ کوئی کارروائی نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو یہ قوم سدھرنے کے بعد آپ کے خلاف اٹھ کھڑی ہو لہذا ان پر ظلم کرنے والے لوگ اپنے ہاتھ میں ہیں اور وہ اسی ماحول میں کسی کو آپ کے خلاف نہیں بولنے دیں گے۔

ظلم کرنے والے گروہوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں جن سے وہ وابستہ رہ کر مدہوش ہیں، انہیں ہوش نہ آنے دیا جائے مگر وہ شاید یہ بھول گئے تھے کہ ظلم آخر ظلم ہوتا ہے،  بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور پھر قانون قدرت اپنا رنگ دکھاتا ہے۔  ایسا پچھلے کئی برس سے ہورہا تھا جس کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد نے اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلیں تھیں اور وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔

چند برس پہلے اسکول کے بچوں پر دھشت گردوں نے حملہ کیا اور اس المناک واقعہ میں سینکڑوں شہید ہوگئے جس کے بعد بادشاہ وقت نے اجلاس طلب کیا اور اس میں وزیروں مشیروں اور عسکری طاقت کو بھی اپنے ساتھ بٹھایا اور اس واقعہ کی بھر پور مذمت کے ساتھ ملک بھر میں دھشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھر پور کارروائی کا فیصلہ کیا گیا اور  ایک صف میں کھڑے ہوکر یہ عہد کیا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ایک پر امن ماحول دیں گے اور دھشت گردوں کو ختم کرکے دم لیں گے۔

ضرب عضب کے نام سے شروع  کئے گئے  آپریشن کے وقت دنیا کے  تین سو ستائیس شہروں میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا شورش زدہ شہروں کی فہرست میں چھٹا نمبر تھا۔ جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائیوں کے بعد ہمارے حساس ادروں اور پولیس کے افسران وجوانوں کے ساتھ  ہزاروں شہریوں نے بھی حصول امن کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

دو ہزار پندرہ میں کراچی دسویں نمبر پر آگیا، تیز ترین کاروائیوں کے بعد دوہزار سولہ میں چھبیس اور دوہزار سترہ میں سینتالیس واں نمبر حاصل کرلیا جبکہ ملک کا دوسرا بڑا شہر لاہور دوہزار سترہ میں ایک سو انیسویں نمبر پر آگیا اور وفاقی دارالحکومت آسلام آباد دو سو چوبیسویں نمبر پر آگیا۔

شاید ایسے دھشت جوکہ ملک میں بد امنی پھیلانے میں ناکام ہورہے تھے انہوں نے مختلف طریقوں سے سازش شروع کردی اور معمولی جرائم کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک خوفناک کہانی بنا کر پیش کرنا شروع کردیا۔ تاہم ان کھوکھلی سازشوں کو سیکیورٹی اداروں نے بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں ملوث اوچھے ہتھکنڈوں پر اترے افراد کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور سنجیدگی سے جواب دیا تم کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہو۔

کراچی اب پرامن شہر بن چکا ہے لہذا اب کسی کو خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔  تاہم اس سازش کے پیچھے بعض عناصر نے بیرونی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی لہذا کراچی کے باسیوں سے گزارش ہے کہ وہ ایسی کسی بھی  سازش کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ذرا سوچئیے!



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.