سمیع الحق شہید، جاں بحق یا ہلاک؟

Maulana Sami ul Haq stabbed to death in Rawalpindi


کون جانتا تھا کہ ایک جنازہ حقانیت کی سوچ کامحور ہی بدل دے گا۔ اسی سالہ ضعیف مگر مذہبی اور سیاسی عمر کا نوجوان دنیا سے رخصت ہوا تو ایک زمانہ الوداع کہنے آیا۔

مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملے  کے بعد موت کی خبر سامنے  آئی تو کسی نے شہید گردانا، کسی نے جاں بحق قرار دیا اور بعض نے ہلاک کہا لیکن مولانا دنیائے فانی سے جاتے ہی زندہ ہوگئے۔ دارالعلوم  حقانیہ کی حمایت اور مخالفت کرنے والوں نے جو منظر دیکھا وہ مولانا کی حقانیت کیلے کافی ہے۔

مولانا صاحب کی شہادت پر طرح طرح کے تبصرے کئے گئے۔ کسی نے کہا فادر آف طالبان دنیا سے چلے گئے۔ کسی نے کہا نرسری آف جہاد دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ کی زندگی کا باب ختم ہوا تو بعض لوگوں نے مولانا سمیع الحق کو شہید کہنے پر اعتراض اٹھایا۔ اپنی زندگی میں تنقید اور اپنے خلاف ہونے والے پروپیگندے کو ہنستے مسکراتے سہنے والے نرم مزاج مولانا جاتے جاتے بھی ملک میں پھیلے انتشار کو اتحاد میں بدل گئے۔

ایک ایسے وقت جب توہین رسالت کے نام پر ملک امن وامان کی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا، مولانا کا جنازہ ہی بے چینی میں چین کا سبب بنا۔ سیاست میں  نسبتاً  کمزور مولانا سمیع الحق  نےاستحکام امن کیلئے عملی میدان میں بہت کام کیا۔  افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان، مولانا نے ہمیشہ ظالمانہ اقدامات کی مخالفت کی۔ قبائلی تو دور پاکستان کے جب شہری علاقوں میں انسداد پولیو مہم چلانا ناممکن نظر آتا تھا تو مولانا سمیع الحق نے پولیو کے قطروں کے حق میں تفصیلی فتویٰ جاری کیا۔

سن دوہزار پندرہ میں  سمیع الحق نے دس جلدوں میں خطباتِ مشاہیر کو شایع کیا۔ اس کے ساتھ ہی دوہزار سولہ میں مولانا سمیع الحق نے اپنی ڈائری شایع کی جسے ان کے مخالفین کو ضرور پڑھنا چاہئے۔

مولانا کو فادر آف طالبان کا نام دینے والے اس ڈائری میں جانیں گے مولانا کے والد محترم مولانا عبدالحق صاحب نے ایک درویش حاجی صاحب ترنگزئیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ خان عبدالغفار خان (باچا خان) بھی ترنگزئی ؒصاحب کے پیروکار تھے اور مولانا سمیع الحق نے اپنی ڈائری میں باچا خان کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو شامل کی ہے ۔

اس ڈائری میں کہیں لاہور میں داتا گنج بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مولانا بہاء الحق قاسمی سے ملاقاتوں کا ذکر ہے تو کہیں  میر پور (بنگلہ دیش) میں حضرت شاہ علی بغدادیؒ کے مزار کی زیارت کا بھی تذکرہ ہے ۔ اس ڈائری میں امام احمد بن حنبلؒ کی شان میں اشعار بھی نظر آتے ہیں۔

مولانا صاحب نے افغان طالبان کے بارے میں ایک کتاب انگریزی میں بھی شائع کی اور بتایا کہ بہت سے افغان طالبان اُن کے مدرسے کے سابق طلبہ ہیں لیکن وہ اپنے مدرسے کے پاکستانی طلبہ کو افغانستان لڑنے کے لئے نہیں بھیجتے۔

مولانا سمیع الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر جمہوری جدوجہد کی تلقین کی۔ وہ پاکستانی ریاست کے خلاف شورش اور مسلح جدوجہد کے قائل نہ تھے۔ تین نومبر کو مولانا کے جنازے نے امام احمد بن حنبلؒ کا قول یاد دلا دیا۔

امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو بغداد میں لاکھوں افراد اُن کے جنازے میں شریک ہوئے اور جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیرمسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ اب مخالفین اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق صاحب کے جنازہ دیکھ لیں اور مولانا سمیع الحق کی حقانیت کا فیصلہ کر لیں۔ 



اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.