نیب کا کام کیا، کرپشن کا خاتمہ یا عزت کا

Supreme Court admonishes NAB for handcuffing Mujahid Kamran


تحریر: شاہد انجم

جنگل میں ظلم کی انتہا ہوچکی تھی ہر جانور آدم خور تھا یا ہم جنس جانوروں کو بھی ظلم کا نشانہ بنا رہا تھا، کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا کس سے جواب طلب کرے کس سے انصاف کی امید رکھے ہر کوئی اپنی عارضی آرام گاہ میں ڈرا سہما کمبل اوڑھ کر  اونچی آواز میں سانس بھی نہیں لے سکتا تھا کہیں  میرا دشمن تو کیا دوست ہی اپنی بربریت کا نشانہ نہ بنا ڈالے۔

ظلم وبربریت کی اس داستان کو کئی برس ہونے کو تھے اور ہر کوئی اس امید میں تھا کہ کوئی مسیحا  آئے گا جو انہیں اس دلدل سے نکال کر آزادی سے سانس لینے کی نوید سنائے  گا۔ ظلم کی یہ تاریک رات کب ختم ہوگی اور وہ صبح کا سورج کب طلوع ہوگا جس کی کرن سے زندگی کی امیدیں بندھی ہیں۔

اچانک ایک روزجنگل میں اعلان کیا گیا کہ آج کے بعد کسی کے ساتھ کوئی زیادتی اور ظلم و جبر ہو، کسی کے حق کو چھینا جائے تو اس کی شکایت درج کرائی جائی تاکہ اب تک ہونے والے ظلم و جبر  کا ازالہ کیا جاسکے۔ اس اعلان کے بعد جنگل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ظلم کا شکار تمام جانوروں نے اپنی درخواست اگلے ہی روز جمع کرانا شروع کردی۔

درخواست گزاروں کو شاید یہ علم نہیں تھا  کہ جسے وہ مسیحا سمجھ رہے ہیں وہ شاید ان کے مسائل کو حل کرنے کی دانش نہیں رکھتا اور سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا چاہتا ہے۔ وہ شاید آدم خور اور انسان دوست جانوروں میں فرق نہیں جانتا تھا، لہذا اس نے دوسرے ہی روز سے بغیر سوچ بچار  فیصلے کرنا شروع کردیئے اور یہ تحقیق کرنا بھی گوارا نہیں کی کہ جو اقدامات کیے جا رہے  ہیں ان کی زد میں ایسے بھی آئے ہیں جنہوں نے اپنا دودھ پلا کر جنگل کے کئی جانوروں کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا۔

یہ کہانی مجھے اس وقت یاد آئی جب ملک میں متنازع بننے والا نیب کا ادارہ جس نے ملک کے بعض سیاسی رہنماؤں اور بیوروکریسی پر اپنے ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو پاکستان کے عوام میں امید پیدا ہوئی کہ شاید ساتھ دہائیوں سے ان پر ہونے والے ظلم و جبر  کرنے والے دیوتاؤں کو پکڑنا شروع کیا جاچکا ہے اور لوگوں میں یہ بھی امید بندھی کہ شاید ان کے اچھے دن آنے والے ہیں کیونکہ انہی ظالموں کی وجہ سے ملک قرضوں کے بوجھ تلے اتنا دب چکا ہے کہ عوام کو سانس لینا بھی مشکل ہورہا ہے۔

لیکن اب تک ادارے کو اپنے دعووں کو ثابت کرنے میں بظاہر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ اس ادارے کی غیر جانبداری پر سوال تو پہلے سے ہی اٹھ رہے تھے، اب اس ادارے کے افراد نے جس استاد سے سبق لے کر اس کرسی پر بیٹھنے کی صلاحیت حاصل کی ان کی بزرگی کا بھی خیال نہ رکھا اور استاد کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے انہیں ہتھکڑیاں لگا کر ایک فوجداری مقدمہ کے ملزم کی طرح عدالت میں پیش کیا جس سے انسانیت کی تذلیل تو اپنی جگہ، پاکستان کی اس تصویرکو دنیا بھر میں پیش کیا گیا اور اس کی مثال شاید اس سے پہلے کبھی ملتی۔

بہرحال ایک عدالت اور بھی ہے اور میں شکر گزار ہوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا جنہوں نے فوری طور پر اس معاملے کو بہت گہری نظر سے دیکھتے ہوئے نیب کے افسران کو طلب کیا۔ عدالت میں نیب کے افسران نے مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش تو کی تاہم اب بہت دیر ہوچکی تھی،  جو گناہ سرزد ہونا تھا وہ ہو چکا، اب بھی سوچنا ہوگا کہ کیا آئندہ نیب اس بارے میں اپنے طریقہ کار میں محتاط ہوگا؟ ذرا سوچیئے



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.