کل کے شاہ غسان، آج کے اشرافیہ

کل کے شاہ غسان، آج کے اشرافیہ

تحریر: عبید شاہ

یہ عہد فاروقی ہے خلافت راشدہ دنیا بھر میں تیزی سے فتوحات حاصل کر رہی ہے سماجی، معاشی  انقلاب کا آغاز ہوچکا ہے، عدل و انصاف مظلوم کی دہلیز تک پہنچ رہا ہے۔ کئی ممالک کے بادشاہ، امراء و اشرافیہ بھی دین اسلام میں جوق در جوق داخل ہورہے ہیں۔ خلافت راشدہ کی  کامیاب خارجہ پالیسی  کی وجہ سے شاہ غسان مسلمان ہوگیا ہے۔

شاہ غسان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے پر امیر المئومنین حضرت عمر  بہت مسرور ہیں کیونکہ انہیں اُمید ہوچلی ہے کہ اب شاہ غسان کی رعایا بھی  اسلام قبول کر کے ایک اللہ اور ایک نظام کو ماننے والوں میں شامل ہوجائے گی۔

شاہ غسان حکومتی وفد کے ہمراہ  بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے کہ اسی دوران ایک غریب اعرابی کا پاؤں شاہ غسان کے کپڑے پر پڑ جاتا ہے شاہ غسان کو یہ بات اتنی ناگوار گزرتی ہے کہ وہ اس غریب عرب کو ایک گھونسا رسید کر دیتا ہے جس سے اس کا ایک دانت ٹوٹ جاتا ہے۔

اعرابی اسی حالت میں حضرت عمر کے دربار میں فریاد کرتا ہے تمام سفارتی پروٹوکولز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حضرت عمر شاہ غسان کو طلب کرتے ہیں شاہ غسان اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا ہے جس پر حضرت عمر مدعی کو قصاص (بدلہ) لینے کی اجازت دیتے ہیں۔

یہ سُن کر شاہ غسان بُرا مان جاتا ہے کہ ایک معمولی شخص بادشاہ کے برابر کیسے، اس کو مجھ سے بدلہ لینے کا حق کیسے؟ آخر سفارتی استثنٰی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا اسلام نے تم دونوں کو برابر کردیا ہے اور عدل اللہ کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے جسے ہم نے اختیار کرنا ہوتا ہے۔  یہ صورتحال جب شاہ نے دیکھی تو ایک دن کی مہلت طلب کی اور راتوں رات مکہ سے نکل بھاگا اور مُرتد ہوگیا۔

میرے ملک میں اشرافیہ، مقتدر حلقے و ادارے بھی شاہ غسان ہیں جو خود کو قانونی گرفت میں تو دور، ہدف تنقید بھی برداشت نہیں کرتے اور گھونسا رسید کر کے دانت توڑ ڈالتے ہیں۔ تاویل میں ملک و قوم کا وسیع تر مفاد شامل ہوتا ہے، شاہ غسان کی طرح اپنی پسند کا انصاف چاہتے ہیں کوئی ان کی چادر پر پاؤں رکھ بیٹھے تو منہ توڑنا ان کا فرض اولین ہوتا ہے اور اس غلطی پر سرزنش کا خوف ہو تو ایسے شاہ غسان  من پسند منصفوں کی جیوری کے خواہاں ہوتے ہیں۔

شاہ غسان اطاعت خداوندی میں داخل ہونے کے باوجود اپنے تکبر کی پرستش کررہا تھا تو آج کے شاہ ریاستی آئین میں اپنے نکتہ نظر کی پیروی کو واجب سمجھتے ہیں۔ بقول جاوید اختر کچھ ایسے حکم صادر فرماتے ہیں

کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا
چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں
حفاظت ان کی کرناہے ضروری
اور آندھی ہے پرانی ان کی دشمن
یہ سب ہی جانتے ہیں کسی کا حکم ہے
دریا کی لہریں ذرا یہ سرکشی کم کرلیں
اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا اور بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا غلط ہے
ان کا یہ ہنگامہ کرنا یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگا اب چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے
اس گلستاں میں بس اب اک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوں گے جو یہ طے کریں گے
گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا

جب شاہ غسان کا بام عروج روبہ زوال ہوتا ہے تو عہد فاروقی والے شاہ غسان سے مختلف نہیں ہوتا۔ مکہ سے راتوں رات فرار ہونے والا مرتد بادشاہ  قسطنطنیہ پہنچا جہاں اس نے دوبارہ عیسائیت قبول کر لی۔

زمانہ بیت گیا، اس کی جوانی کا رنگ اڑ گیا، نقوش ماند پڑ گئے، شان و شوکت دھندلا گئی۔  اسے اسلام کے ایام یاد آ گئے۔ نماز اور روزے کی لذت بیدار ہونے لگی، اسے اسلام چھوڑنے پر ندامت ہوئی، زیادہ ندامت اس بات پر ہوئی کہ میں اسلام میں داخل ہونے کے بعد دوبارہ مشرک ہو گیا۔ اس نے آخری عمر میں کچھ اشعار کہے جن کا مفہوم یہ ہے:

"ایک شریف خاندان کے چشم و چراغ نے ایک تھپڑ کے بدلے تھپڑ کھانے میں سبکی محسوس کی جس کی وجہ سے اسلام سے برگشتہ ہو کر عیسائی بن گیا، حالانکہ تھوڑا سا صبر کر لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔  کاش! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا، کاش! میں عمر رضی اللہ عنہ کی بات مان لیتا۔  کاش! شام میں میری معیشت کا ادنٰی سا سامان بھی ہوتا تو میں اپنی قوم کے افراد کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا۔  اب تو میری سماعت بھی ختم ہو رہی ہے اور بصارت بھی۔"

مگر اس احساس کے باوجود اس نے توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول نہیں کیا۔ اسے شرک اور کفر ہی کی حالت میں موت آئی۔

ریاست کی نوکری سے فراغت کے بعد ان بادشاہوں کے احساس بھی کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں، نادم ہوتے ہیں، صفائی دیتے ہیں، کتاب لکھتے ہیں، تاریخ کے حوالوں میں یاد رکھے جاتے ہیں لیکن غریب اعرابی جیسے جسٹس انہیں بے نقاب کر جاتے ہیں۔




اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک ٹی وی نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدانِ صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.