اوربھی دکھ ہیں زمانے میں 'سیاست' کے سوا

Politicians active in Pakistan's general elections 2018


تحریر: آصفہ ادریس

ہمارے پیارے وطن میں ہرموسم خوب جوش وخروش سے منایا جاتا ہے  اور اس دوران عوام اپنے  سارے  دکھ درد بھول کر اس موسم کی مخصوص ٹرک کی بتی کے پیچھے  لگ جاتے ہیں۔ یوں توموسم چار ہوتے ہیں لیکن ہم تو کبھی کرکٹ کا  تو  کبھی کسی اور چیز  کا موسم مناتے پائے جاتے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے الیکشن کے موسم کا توجناب ہرطرف بس اسی کی بہاریں ہیں۔

کراچی کو کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والے  ایک بارپھر آزمائش شرط ہے کے دعووں کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاریاں کررہے ہیں بغیر یہ سوچے سمجھے کہ 'کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے'۔

نیا پاکستان کے خواب دکھانے والوں سے اگر یہ گزارش کی جائے کہ حضور نئے پاکستان کو جانے دیں ہمیں تو ٹھونک بجا کرپرانا پاکستان ہی ٹھیک کردیں ہم اسی سے کام چلا لیں گے تو  ان کے  برا  ماننےکے  چانسز کافی زیادہ ہیں۔ نیا نیاجذبہ ہے تو ہربات دل پر لے لیتے ہیں نا۔

مسائل کا ایک انبار ہے جس کے بوجھ تلے عوام دبے ہوئے ہیں لیکن ایک بار پھر اقتدار کی میوزیکل چئیر کا کھیل شروع ہوچکا ہے جس میں ہرکوئی سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔

بجلی اورپانی سے محروم علاقے،گندگی کے ڈھیر  پر کھیلتے  اور زرق تلاش کرتے بچے اور روزگارنہ ہونے پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نوجوان نہ جانے کیوں ہمارے سیاستدانوں کو دکھائی ہی نہیں دیتے۔ دکھائی دیتے ہیں تو انسانوں کی شکل میں ووٹ جن کا استعمال کرکے اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹے جاسکتے ہیں۔

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ تو سنا تھا لیکن ہمارے ملک میں کئی سال تک برسراقتدار رہنے والے سیاستدانوںکے سینے بھی دل سے خالی ہیں اس بات کا منہ بولتا ثبوت پاکستان کے گلی کوچے اور محلے ہیں۔

ایک بار پھر انتخابات کا شورہے اور ایک دوسرے پر  الزام دھر کر اورکیچڑ  اچھال کر عوام کو پھر بیوقوف بنانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن اب لوگوں کو بھی اس بات کا احساس کرنا ہوگا  کہ بس بہت ہوگیا۔ پرانے سیاستدانوں اورملک کا بیڑہ غرق کرنے والوں کے بجائے  نئے  چہرے  اور نئے  لوگوں کوآزمانے کا وقت آگیا ہے۔ 

مانا کہ ذات، برادریوں، زبان اور علاقے کی زنجیروں میں جکڑے نظام میں یہ اتنا آسان نہیں لیکن کہیں نہ کہیں سے کوئی شروعات تو کرنا ہی ہوگی۔

یہ بات تو طے ہے کہ کہیں باہر سے یا آسمانوں سے کوئی مسیحا نہیں آئے گا بلکہ خود ہی کوشش کرنا ہوگی اوربہت کرنا ہوگی۔سیاست برائے سیاست کے بجائے سیاست برائے خدمت کے رواج کوعام کرنے کے لئے سب کواپنے اپنے طور پر کام کرنا ہوگا ،کیونکہ قطرہ قطرہ ہی دریا بنتا ہے۔


اس تحریر کی مصنفہ آصفہ ادریس صحافت میں وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ وہ مختلف ٹی چینلز سے وابستہ رہی ہیں اور اب بھی ایک بڑے ٹی وی چینل میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان سے ٹوئیٹر asifaidris@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.