پھر وہی کشکول پھر وہی آئی ایم ایف، ن لیگ کے مضبوط معیشت کے دعوے ریت کا محل ثابت

Pak rupee devalued by US Dollar

تحریر: رباب رضا

روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کی جانب کشکول پھیلانے کا اشارہ ہے۔  پاکستانی روپیہ اس مرتبہ منہ کے بل گر پڑا۔

جون کے دوسرے ہفتے کے پہلے دن ٹریڈنگ کے آغاز پر ہی ڈالر کی قیمت میں پانچ روپے کا اضافہ ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈالر ایک سو بائس روپے کی بلند ترین سطح پر جاپہنچا۔ اگلے ہی روز منگل کو روپیہ کی مزید بےقدری ہوئی اور ایک روپیہ پینسٹھ پیسے اور گر گیا۔ گزشتہ سال جولائی سے اب تک پاکستانی کرنسی کی قدر میں تین بار نمایاں کمی ہوئی۔

دسمبر دوہزار سترہ کے اختتام تک روپے کی قدر میں دس فیصد کمی آئی تھی۔ عالمی مالیاتی ادارے روپے کی قدر کے استحکام کو کافی عرصے سے مصنوعی قرار دے رہے تھے۔ روپے کی قدر میں کمی کی پیشگوئیاں بہت عرصے سے جاری تھیں۔ مگر حکومت سنی ان سنی کررہی تھی۔۔

عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کو پہلے ہی خدشہ تھا کہ ڈالر کی قیمت ایک سو پچیس روپے تک جا سکتی ہے ۔ مسلم لیگ نواز نے روپے کی قدر کو اپنی انا کا مسئلہ بنایا ہواتھا۔ کبھی سعودیوں سے مدد مانگی اور رزمبادلہ ذخائر کو سپورٹ کرنے کیلئے ایک ارب ڈالر لائے تو کبھی بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں پر دباؤ ڈالا۔

اب ن لیگی حکومت کی رخصتی  پر مستحکم معیشت ریت کا محل ثابت ہوئی۔ جاری کھاتوں کا خسارہ، تجارتی خسارہ، روپے کی قدر اور قرضوں کا حصول سب منفی زون میں چلا گیا اور اب ملک کے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسنے کی راہ ہموار ہورہی ہے ۔

کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر روپے کی قدر میں کمی کا باعث بن رہے ہیں اور زرمبادلہ ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ بیرونی کھاتوں پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔اس وقت بھی زرمبادلہ ذخائر ڈھائی ماہ درآمدی بل کے برابر رہ گئے ہیں جو کہ تشویش ناک حد تک کم ہے۔

گزشتہ حکومت نے صرف روپے کی قدر کو ہی نہیں مصنوعی طور پر مستحکم رکھا بلکہ زرمبادلہ ذخائر میں اضافے کی وجہ بھی غیر ملکی قرضے تھے۔  وزارت خزانہ کے اندرونی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ضرورت سےزیادہ چین کے کمر شل بینکوں کے قرضوں پر انحصار کر رہی ہے جو کہ نہ صرف مہنگے بلکہ قلیل مدتی بھی ہیں۔

دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سےقرضوں کے اجراء میں کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ روپے کی قدر میں کمی کے بعد صورت حال مزید واضح ہوگئی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام  اب پاکستان  کیلئے ناگیزیر ہوچکا ہے ۔

غیر ملکی جریدے ہوں یہ ملکی معاشی ماہرین سب دگرگوں معاشی صورتحال کے باعث پاکستان کے آئی ایم ایف کے در پر جانے کی مسلسل پیشگوئی کررہے ہیں۔  رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں جاری کھاتوں کا خسارہ چودہ ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ تجارتی خسارے کا حجم پچیس ارب ڈالر تک ہے۔ زرمبادلہ ذخائر دس ارب ڈالر کی سطح تک گر چکے ہیں جبکہ اگلے مالی سال میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنے ہیں جس کیلئے اسٹیٹ بینک کے پاس ڈالرموجود نہیں۔


اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کر کے سخت مانیٹری پالیسی اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔   گزشتہ نگراں حکومت میں بھی آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کی باتیں شروع ہوئیں تھیں اور نواز حکومت نے آتے ہی قرض پروگرام پر دستخط کر دئیے تھے۔ اور اب بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال بن رہی ہے۔

اس تحریر کی مصنفہ رباب رضا، عامل صحافی ہیں اور مختلف نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں۔ ان سے ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔@rababkashif


مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.