وقت سے جنگ


چودہ اگست سے شروع ہونے والے لانگ مارچ اور دھرنوں کا اب ڈراپ سین بظاہر آنے کو ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے دی گئی ڈیڈلائن آج شام ختم ہونے کو ہے اور عمران خان بھی اپنے حتمی لائحہ عمل کے بارے میں آج عوام کو آگاہ کرنے والے ہیں۔  

دونوں دھرنوں کو تیرہ دن ہوچکے ہیں اور شرکاء بارش، گرمی، دھوپ میں بیٹھے اپنے عزم کو آزما رہے ہیں۔  دونوں دھرنوں کےرہنماؤں نے اپنے مطالبات منوانے تک دھرنے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔  

دونوں کے مطالبات میں قدرمشترک وزیراعظم نواز شریف کا استعفاہے اور یہ نکتہ ایسا ہے جسے قلم زد کیے بغیر ہی حکومت سے مذاکرات ممکن ہیں، لیکن عدالت عظمی کی جانب سے شاہراہ دستور خالی کرنے کے حکم کے بعد رہنماؤں پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

 ان رہنماؤں کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ صرف دھرنوں کے شرکاء اور ان کے رہبروں پر ہی دباؤ نہیں بڑھ رہا بلکہ لاہور میں وزراء کیخلاف مقدمہ قتل کے اندراج کے عدالتی حکم کے بعدحکومت پر بھی دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقوں میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ دیرآید،درست آید کے مصداق  اس معاملے کو منطقی انجام تک مزید وقت کے ضیاع کے بغیر لے آنا چاہیے چاہے اس کے لیے کتنے ہی پاپڑبیلنے پڑیں۔


 اب حکومت اور احتجاجی دھرنوں کے رہنماؤںسمیت ہرفریق کووقت سے جنگ کرنی ہے اور وقت سےجنگ میں جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس پیش بینی کی صلاحیت ہوتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.