Future of Talks

اسلام آباد اور سبی کے دھماکوں نے طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات پر سوالیہ نشان لگادیا ہے اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا صرف طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کامیابی ہی ملک میں امن کی ضمانت ہے۔ اس ہفتے سبی میں ریل گاڑی کو دھماکے سے تباہ کیا گیا اور اگلے ہی دن اسلام آباد کی فروٹ منڈی کمیں دھماکہ اوردونوں واقعات میں چالیس افراد کی ہلاکت نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ جیسے ہی دھماکے کی خبر آئی تو پہلا خیال طالبان کی جانب گیا۔۔۔بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں واقعات کی ذمہ داری یونائٹیڈ بلوچ آرمی نے قبول کرلی۔۔۔تاہم وزراتِ داخلہ نے بلوچ یونائیٹیڈ آرمی کا دعوی مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد دھماکے کے تانے بانے کہیں اورجا کر ملتے ہیں ۔ حکومت ملک میں امن کے قیام کی خاطر طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی امن کی ضمانت ہے لیکن کون سے طالبان کے ساتھ۔۔۔ گزشتہ پانچ روز سے طالبان کے دو متحارب گروہوں کے درمیان خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔ ۔۔۔ادھر احرارالہند بھی اب امن کے راستے میں کھڑی نظر آرہی ہے جس کے بارے میں حکومت کے پاس اب تک کوئی معلومات نہیں ہیں اور اب یونائیٹڈبلوچ آرمی بھی میدان میں ہے۔۔۔ سابق وزیرداخلہ رحمان ملک کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچ تحریکوں نے لشکرجھنگوی اور طالبان سے ساز باز کر رکھی ہے اور اسلام آباد کی فروٹ منڈی میں دھماکہ اسی ساز باز کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔  اس بدلتی صورتحال میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کیا کسی ایک گروپ سے مذاکرات کامیاب حکمت عملی ہوگی۔ کیا حکومت کو تمام شدت پسند گروپوں سے ایک ایک کرکے مذاکرات کرنے ہوں گے یا پھر اب قوم کو بتانا ہوگا کہ کن گروپوں سے بات ہوگی اور کن سے اب لڑائی ہوگی۔
 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.