مجھے کیوں مارا


کمسن  زینب کی لاش چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی۔۔۔ مجھے کیوں مارا۔۔۔ مجھے کیوں مارا۔۔۔

قصور میں سات سال کی زینب درندگی کا شکار بن گئی۔۔لاش مقامی کوڑا دان سے ملی، مگریہ لاش صرف ایک بچی کی  نہیں۔ یہ ملک میں ہر پل مرتی انسانیت کی لاش تھی۔۔ جو نہ جانے کتنے گھنٹوں سے وہاں پڑی تھی۔ وہ حکومت کے خوشحالی اور امن کے تمام دعووں پر تازیانے برسارہی تھی۔  زینب کی لاش ملنے اوراغوا  ہونےکے درمیان پانچ دن کا وقفہ ہے۔ پانچ دن تک اس کی تصاویر سوشل میڈیا پرنظرآتی رہی۔ کسی نے توجہ نہیں دی،کوئی فرق نہیں پڑا۔پھر اس زینب کی لاش نے معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔

زینب کی لاش نےشیخوپورہ کی سوئی ہوئی پولیس کو جگادیا۔شیخوپورہ میں چھ سال کی بچی کےساتھ زیادتی اورقتل کے ملزم کو ماردیا گیا۔ پولیس نے دعویٰ کیاکہ یہ وہ ملزم تھا جس نے زیادتی کی تھی۔ پولیس نے خودہی تفتیش کی، خود ملزم کوپکڑا، اس کو خود ہی مجرم قراردیا،خود ہی انجام تک پہنچایااور پھر خود ہی میڈیاکو بھی بتادیا۔ اسے پولیس کی کارکردگی کہاجائے یا اس لئے یہ اقدام کیا گیا تاکہ  قصور کے بعد شیخوپورہ میں ممکنہ عوامی غصے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

قصورمیں شدیداحتجاج نےعوامی توجہ ننھی زینب کےساتھ زیادتی اوراندوہناک قتل پرمبذول کرادی۔ عوام نے سوشل میڈیا پربھی حکومت کوخوب ہی آڑے ہاتھوں لیااورمجرموں کوکیفرکردارتک پہنچانے کامطالبہ کیا۔ قصورکے واقعہ نے شیخوپورہ کی پولیس پر بھی دباؤ بڑھادیا جہاں اسی طرح کا واقعہ پیش آیاتھا۔ وہاں بھی چھ روزقبل چھ سال کی بچی کو زیادتی کےبعد قتل کردیاگیاتھا۔ پولیس نے قصورکی طرح شیخوپورہ میں عوامی غصے سے بچنے کےلئے ایک ملزم کومبینہ پولیس مقابلے میں ماردیا۔ پولیس نے دعویٰ کیاکہ یہ ہی وہ ملزم تھا جس نے بچی کےساتھ زیادتی کی تھی۔

پولیس نے میڈیا کو بتایاکہ ملزم کو تھانے لے جایا جارہا تھا جہاں اس کے ساتھیوں نے پولیس پر حملہ کردیا اور مقابلے میں ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی گولی لگنے سے مارا گیا۔ پولیس کی یہ کہانی سن کر خیال آتاہےکہ ایک ہی طرح کا واقعہ مختلف تھانوں کی پولیس کے ساتھ مختلف علاقوں میں بار بار کیوں ہوتا ہے۔

پولیس نے دو ٹوک الفاظ میں بتادیا کہ جس شخص نے زیادتی کی تھی وہ مارا گیا۔ پولیس مقابلے میں مرنے سے کیا ملزم، مجرم قرار پاتا ہے یہ پولیس کو کون سمجھائے۔ اگر ایسا درست ہوتا تو پھر عدالتی نظام کی کیا ضرورت تھی۔ بہرحال پولیس کا اپنا موقف ہے کہ پولیس ملزم تک بہت مشکل سے پہنچتی ہے، پھر تفتیش کرتی ہے، لیکن عدالت ملزم کو چھوڑ دیتی ہیں۔ دوسری جانب ماہرین کا کہناہے کہ تفتیش میں اتنے جھول ہوتے ہیں کہ تفتیشی افسر عدالت میں جرم ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے اور کمزور تفتیش کے باعث ملزم بری ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں کمزور استغاثہ کے باعث سزاؤں کی شرح تین سے چار فیصد کے درمیان ہے۔  ویسے یہ ایک علیحدہ بحث ہے جس پر پھر کبھی بات کریں گے۔

بات ہو رہی تھی بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی وارداتوں سے متعلق۔  قصور اور شیخوپورہ کے  علاقوں میں بچیاں پانچ چھ روز تک اغوا کرنے والے درندوں کے قبضے میں ہوتی ہیں لیکن پولیس ان درندوں تک پہنچ کر بچی  کو بازیاب کرانے میں ناکام رہتی ہے اور ایسا ہر بار ہوتا ہے۔ پولیس نے اب تک متعدد واقعات میں سے ایک بھی بچی کو بازیاب نہیں کرایا بلکہ ان کے والدین کو اپنے لخت جگرکی لاش ہی ملی۔

قصورمیں آرپی او نے میڈیاکوبتایا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران صرف قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بارہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال شیخوپورہ کے آرپی او صاحبزادہ سلطان نے سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ شیخوپورہ اور قصور کےاضلاع میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک غیرسرکاری تنظیم ساحل کےاعدادوشمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال دوہزارسترہ میں پنجاب کے دواضلاع شیخوپورہ اور قصورمیں بائیس کمسن لڑکیوں کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا۔

گزشتہ سال عوامی نمائندوں کےفورم پراعتراف کے باوجود پولیس اور حکومت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سرکاری ادارے ملزمان کو پکڑنے اور وارداتوں پر قابو پانے کی حکمت عملی بنانے کے بجائے غیرسرکاری اداروں اور میڈیا میں آنے والے اعدادوشمار سے اختلاف کرنے اور ان کی تردید کرنے میں وقت صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ قصور اور شیخوپورہ میں  درندہ صفت افراد بلاخوف وخطر ننھی کلیوں کو مسل رہے ہیں۔

تحریر:ارمان صابر

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.