“ہم پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ بنائیں گے”



حکومت نے ایک ہزارارب روپے سے زائد خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کرلیا جن میں خسارے کا سامنا کرنےوالے بڑے ادارے پی آئی اے اور اسٹیل ملز شامل ہیں۔

یہ دونوں ادارے اربوں روپے کے خسارے میں ہیں۔ قومی ایئر لائنز پر سوا تین  کھرب روپے سے زیادہ کا قرض چڑھ چکا ہے جبکہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو ہر ماہ تنخواہیں دینے کے لئے حکومت کو چھہتر کروڑ روپے دینا پڑ رہے ہیں جو کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مترادف ہے۔

حکومت کاکہناہےکہ خسارے میں چلنے والے ادارے خزانے پر بوجھ ہیں اور ان کی نجکاری انتہائی ضروری ہے۔ نجکاری کے ذریعے نہ صرف حکومت کو اربوں روپے حاصل ہوں گے بلکہ حکومتی اخراجات میں بھی خاطرخواہ کمی ہوگی۔

اس سے پہلے پی ٹی سی ایل اور موجودہ کے الیکٹرک سمیت کئی اداروں کی نجکاری کی جاچکی ہے۔ یہ تمام ادارے وہ ہیں جو ہمیشہ سے خسارے میں نہیں تھے بلکہ انتہائی منافع بخش ادارے تھے۔

منافع سے خسارے میں جانے کے اسباب

تقریباً دو سال پہلے بھی ن لیگ کی حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی کوشش کی تھی لیکن زبردست احتجاج کے بعد حکومت نے اپنا فیصلہ ملتوی کردیا تھا۔

قومی ایئر لائنزنے اپنے قیام کے بعد سے ہی ترقی کاسفر شروع کردیا تھا اور اسے بامِ عروج اس وقت ملا جب ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغرخان  پی آئی اے کے سربراہ تھے۔ قومی ایئر لائنز نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ریکارڈ منافع کمایا تھا اور یہ  دنیا کی بہترین کمرشل فلائٹس میں شمار ہونے لگی تھی۔

اس عروج کے بعد پی آئی اے کا زوال شروع ہوا اور اس میں تیزی نوے کی دہائی سے آنی شروع ہوئی۔ نوے کی دہائی میں حکومتوں نےمیرٹ کا قتل کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو سرکاری اداروں میں ملازمتیں دینا بلکہ کہاجائے بانٹنا شروع کیں تو غلط نہ ہوگا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ 

ایک حکومت گئی تو دوسری نے اس کے بھرتی کیے گئے ملازمین کو فارغ کردیا اور اپنے بھرتی کردیے۔ اسی طرح جب دوسری جماعت کی حکومت گئی اور پہلی کودوبارہ اقتدار ملا تو اس نے فارغ کیے گئے ملازمین کو بحال کردیا ۔ سال گزرتے گئے اور سرکاری اداروں میں ملازمتوں کی بندبانٹ جاری رہی۔ سرکاری اداروں کے وسائل کا بےدریغ استعمال کیا جاتا رہا۔ کرپشن اور ملازمتوں کی بندربانٹ کے باعث سرکاری خزانےپر بوجھ بڑھتا رہا۔

گنجائش سے زیادہ بھرتی جب مشکلات پیدا کرنے لگی تو ن لیگ کی حکومت نے پی آئی اے میں  ملازمین کوگولڈن ہینڈشیک دینے کا فیصلہ کیا۔ پی آئی اے نے ساڑھےسات ہزارملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے تحت انیس سوستانوے میں بھاری رقوم اور مراعات دےکرفارغ کیا۔ ان میں سے بیشتر سابق ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو  کوآج بھی ملکی اور غیر ملکی پروازوں کے ٹکٹس مفت دیے جاتے ہیں۔

دنیا بھر کی ایئر لائنوں پر نظر دوڑائی جائے توپاکستان کی قومی ایئر لائن میں گنجائش سے زیادہ بھرتی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور خسارے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ دنیا میں  ایئر کریواور گراؤنڈ اسٹاف کو ملا کر مجموعی جہازوں کی تعداد پر تقسیم کیاجاتاہےجس سے ایک جہاز پر اوسط عملے کی تعداد سامنے آتی ہے۔ 

ہمارے حریف  ملک بھارت کی ایئر انڈیا میں ایک جہاز پر ایک سوچودہ ملازمین ہیں، پڑوسی ملک ایران کی ایران ایئرکے ایک جہاز پر اوسطاً ایک سوچوہتر ملازمین ہیں،ٹرکش ایئرمیں تریسٹھ اور انڈونیشیاکی قومی ایئر لائن میں اوسطاًصرف چھپن ملازمین ایک جہاز پر ہیں۔ پاکستان کی قومی ایئر لائن کے ایک جہاز پر اوسط ملازمین کی تعداد چارسو چھیالیس ہے۔

پی آئی اے ہو، اسٹیل ملز یا کوئی بھی سرکاری ادارہ، ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے اپنے سیاسی کارکنوں کو بھرتی کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جس سے اداروں میں میرٹ کا قتل ہوا، کرپشن میں اضافہ ہوا، کارکردگی شدید متاثر ہوئی، پروفیشنلزم صرف نام کا رہ گیا، اور سب سے بڑھ کر سب نے ذاتی فائدہ کو ادارے اور قومی فائدے پر ترجیح دی جس سے ادارے خسارے میں چلے گئے۔

سیاسی جماعتوں کے لئے اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی بھرتی کیے گئے کارکنوں کو سرکاری اداروں کے ملازمین کی حیثیت سے فارغ کیسے کریں۔ اس طرح عوام میں مقبولیت کھونے کا خطرہ ہے۔ انتخابات بھی قریب ہیں اورایسے وقت ملازمین کو فارغ کیے جانے سے بہتر ہےکہ نج کاری کردی جائے۔


حکومتوں کو قومی اثاثوں کو فروخت کرنا انہیں بہتر بنانے سے زیادہ آسان نسخہ نظر آتا ہے۔ دنیا بھر میں ویلفیئر ملکوں کو دیکھا جائے تو وہاں حکومتیں تعلیم، صحت، پبلک ٹرانسپورٹ  کے شعبوں کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں اور یہاں ان ہی اہم شعبوں کو خود بتاہ کرنے کے بعد نجی شعبوں کے حوالے کیا جارہا ہے اور نعرہ لگایا جاتا ہے کہ ہم پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ بنائیں گے۔

1 تبصرہ:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.