سندھ پولیس، صوبائی حکومت اور مافیاز



 تحریر:طٰہ عبیدی

آپ کسی پولیس افسر سے سوال کریں ، “ کرپشن ہورہی ہے” وہ منہ سے زبان نکالے گا اور کانوں کو ہاتھ لگائے گا ، کرپشن میرے علم میں نہیں نچلی سطح پر ہورہی ہو تو معلوم نہیں آپ کے پاس شکایات اور شواہد ہیں تو بتائیں میں نکیل ڈال دوں گا ، میں اکثر اس جواب پر مسکرا دیتا ہوں ۔ کچھ افسران ایسے ہیں جن کی کارکردگی بہتر ہے اور “کرپشن کنگ” بھی نہیں ہیں لیکن سندھ پولیس اور سندھ حکومت کو ایسے افسران کی ضرورت نہیں ۔

سندھ حکومت کو غلام حیدر جمالی جیسے آئی جی سندھ کی ضرورت ہے ، ایک سابق آئی جی سندھ نے پولیس اور سندھ حکومت کے درمیان تلخی میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا نقصان ہمیشہ سندھ پولیس کو ہوگا ، یہ سابق آئی جی اب بھی سندھ پولیس کی سیاست کا محور ہیں ، سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے بعد ایک مرتبہ پھر سندھ پولیس اور سندھ حکومت میں اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں ، سندھ حکومت کی خواہش ہے آئی جی سندھ “جی حضوری” کرتا رہے جبکہ آئی جی سندھ پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت سے سخت نالاں ہیں ۔

آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات تو بہت سے معاملات پر ہیں لیکن اس میں شدت اُس وقت آئی جب ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ خادم حسین رند کو صوبہ بدر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ، ذرائع بتاتے ہیں کہ سندھ حکومت نے پولیس افسران کی ایک فہرست آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کو ارسال کی جس میں من پسند افسران کی تعیناتیوں کا ذکر کیا گیا ، آئی جی سندھ نے حکومت کی سفارشات کو نظر انداز کردیا جس کے بعد سندھ حکومت کی ایک شخصیت نے من پسند تعیناتیوں کیلئے ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ خادم حسین رند پر زور دیا ، اس کوشش میں بھی سندھ حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اچانک سندھ حکومت نے سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اسلام آباد کو سفارش کی کہ خادم حسین رند کو صوبہ بدر کردیا جائے سندھ حکومت کو خادم حسین کی ضرورت  نہیں ، ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی سندھ ملیر میں بھی ایس ایس پی کی تعیناتی چاہتے ہیں لیکن سندھ حکومت “بڑے صاحب” کے گرین سگنل کے بغیر کسی افسر کی تعیناتی نہیں چاہتی۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ آئی جی سندھ نے خادم حسین رند کو صوبہ بدر کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور وزیر اعلی ہاؤس میں کرپشن میں ملوث پولیس افسران کی فہرست کا ذکر کیا ، آئی جی سندھ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایڈیشنل آئی جی غلام سرور جمالی ، ایس ایس پی یعقوب علمانی ، ایس ایس پی مرتضی بھٹو ، ایس ایس پی عمران ریاض ، ایس ایس پی میر پور خاص جاوید بلوچ ، ایس ایس پی عمر کوٹ اعجاز شیخ کے خلاف آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے خفیہ انکوائریاں مکمل کرکے وزیراعلی ہاؤس ارسال کردی ہے اور ان افسران کو ہٹانے کی سفارش کی ہے ، ان افسران پر کرپشن ، اختیارات کا غلط استعمال ، سیاسی پشت پناہی ، فنڈز میں خورد برد کے الزامات ہیں ، اس فہرست میں ایک پولیس افسر گزشتہ ماہ حیدر آباد میں تعینات تھے جنہوں نے “لٹیرا پارٹی” مطلب اسپیشل پارٹی  بناکر حیدر آباد کے تاجروں کو لوٹنا شروع کردیا تھا ، لاکھوں روپے ہڑپ کرنے کے بعد عہدے سے ہٹایا گیا ان افسر کے خلاف عمران یعقوب منہاس انکوائری مکمل کرچکے ہیں ۔

آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کرپٹ مافیا کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں لیکن سابق آئی جی سندھ کے لاڈلے اور چہیتے کرپٹ افسر کے معاملات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں ، قصہ کچھ یوں ہے پولیس نے ویسٹ زون میں چھاپہ مار کر غیر قانونی دھندے میں ملوث اہم شخصیت کو گرفتار کیا ، جس نے ایک ویڈیو بیان میں انکشاف کیا وہ ایک ایس ایس پی کو سترہ لاکھ روپے ہفتہ دیتا تھا ، جس کے بعد اعلی پولیس افسر کی ہدایت پر پولیس پارٹی نے اورنگی ٹائون فرنٹیئر چوکی پر چھاپہ مارا “وحید دبنگ” تو بھاگ گیا لیکن اس تحقیقات میں ایک پولیس افسر کا کردار بے نقاب ہوگیا پھر یوں ہوا مافیا حرکت میں آیا “تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی اور کمیٹی کو اچانک کام کرنے سے روک دیا گیا” ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تحریر کے مصنف طہٰ عبیدی تحقیقاتی صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ طہٰ عبیدی سے ان کے  فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.