کاش! میں بھی دادو کا ہوتا


Chief Minister Sindh Murad Ali Shah

تحریر : شاہد انجم

سینکڑوں مربع میٹر پر قائم باغات پر تعینات مالی عبدل ہمیشہ خوش وخرم زندگی گزارتا تھا  موسم جیسا بھی ہو قدرتی آفات ہوں یا چوروں کی بھرمار باغات کے ملازمین اور حصہ داروں کو دی جانے والی رپورٹ میں عبدل سب اچھا ہے کہتا تھااس لئے  کہ عبدل باغات کے اس حصے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پزیر  تھا جہاں اعلیٰ نسل کے درخت لگائے گئے تھے جن کی وجہ سے عبدل کی رہائش گا ہ تک موسمی اثرات زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

ہر موسم کا پھل اور چھاؤں دھوپ سب انہیں میسر تھی جس کی سب سے بڑی وجہ ان درختوں کی حفاظت اور ہمہ وقت انہیں کھاد اور پانی دیا جاتا تھا تاکہ عبدل یا اس کے خاندان کو کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ  ہو جبکہ باغات کے دوسرے ملازمین کئی بار عبدل کو شکایت کرچکے تھے کہ باغات کے مختلف حصوں میں بیماریوں کے باعث کئی درخت سوکھ چکے ہیں مگر عبدل ان پر کبھی بھی کان نہیں دھرتا تھا  بلکہ انہیں سب اچھا کی رپورٹ کہہ کر ٹال دیا کرتا تھا۔

میں آج زد پر اگر ہوں تو خوش گماں نہ ہوں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

اچانک ایک روز عبدل نے اپنی جھگی کے اطراف دیکھا کہ کچھ درختوں کے پتے سوکھ رہے ہیں  جبکہ کئی پھول زمین پر گرے ہوئے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر عبدل پریشان ہوگیا اس نے باغات کے دیگر ملازمین کو طلب کیا اور احکامات جاری کئے کہ اگر میری رہائش گاہ (جو کہ جھگی کی شکل میں تھی) کے اطراف درختوں کی بیماری کا اگر فوری علاج نہ کیا گیا تو یہ باغ تو اجڑے گا مگر اس کے ساتھ ساتھ میرے خاندان پربھی  مشکلات آنے کا اندیشہ ہے۔

عبدل کی یہ بات سن کر ملازمین نے یہ  حامی تو بھرلی کہ اس کی  روک تھام میں کو ئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی مگر اس کے ساتھ
یہ چہ میگوئیاں بھی شروع ہوگئیں کہ ہماری طرف سے کی جانے والی ماضی کی شکایت کو کیوں ہوا  میں اڑادیا گیا تھا شاید اس وقت آفت عبدل  کی رہائش گاہ سے دور تھی ۔

عبدل کی یہ کہانی سن کر مجھے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے وہ احکامات یا د آگئے  جو چند روز قبل اپنی سیکورٹی اداروں کو جذباتی انداز میں دیئے جس میں انہوں نے ارشاد رانجھانی کے مبینہ قتل کا نوٹس لیا اور کہا کہ اس طرح شاہراہوں پر ایسے واقعات کی میں کبھی اجازت نہیں دوں گا۔

شاہ صاحب!آپ دوسری بار صوبہ سندھ کے وزیراعلی ٰ بنے ہیں اس سے قبل بھی آپ کا خاندان سیاست میں بہت متحرک رہا ہے لہذا میرا آپ سے  ایک سوال ہے کہ ماضی میں شہر قائد کی  کس شاہراہ کو خون سے نہیں نہلایا گیا، ہزاروں ماؤں کے لعل بہنوں کے بھائی ،بیویوں کے شوہر ،بچوں کے والد چھین لئے گئے۔

کیا اس سے قبل سب اچھے کی رپورٹ تھی، کیا شاہراہ فیصل پر چھ بہنوں کا بھائی مقصود ،ڈیفنس میں اپنے خاندان کا اکلوتا چشم وچراغ  انتظار ، اور بلدیہ فیکٹری کے مزدور جس میں ہماری مائیں ،بہنیں ،بھائی شامل ہیں ،طاہر پلازہ،بارہ مئی جیسے واقعات اس شہر میں رونما نہیں ہوئے، کیا مدرسے سے دینی تعلیم  حاصل کر کے نکلنے والے نوجوانوں کا قتل آپ کو یاد نہیں ہے؟

کاش اس وقت بھی اس طرح کے احکامات جاری کرتے تو آج اس طرح کے واقعات رونماء نہیں  ہوتے۔ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ جن واقعات کا ذکر کیا گیا ان پر کتنے مقدمات درج تھے اور اگر وہ بے گناہ اور بے قصور تھے تو قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا حکومت وقت کا کام ہوتا ہے۔

دوسرا سوال میں عرض کرتا چلوں کہ جن سیکورٹی اداروں پرآج آپ اتنے سیخ پا ہورہے ہیں انہی کے رشتہ داروں انہی کے بھائیوں اور انہی کے دوستوں نے شہادتیں حاصل کرکے شہر کو امن کا گہوارہ بنایا ہے بہتر یہ ہوتا کہ ارشاد رانجھانی کے قتل کی  پہلے تحقیقات کرائیں جاتی اور اگر آپ محسوس کرتے کہ اس میں پولیس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے تو پھر آپ اس طرح کے احکامات جاری کرتے تو بہت بہتر ہوتا لیکن اب شہر قائد کے متاثرہ خاندان  سوچ رہے ہیں کہ اگر ان کا تعلق ضلع دادو سے ہوتا  تو شاید ان کے لئے بھی کوئی آواز اٹھاتا ذرا سوچئے!ذرا سوچئے!



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

  1. سینکڑوں مربع میٹر پر قائم باغات پر تعینات مالی عبدل ہمیشہ خوش وخرم زندگی گزارتا تھا موسم جیسا بھی ہو قدرتی آفات ہوں یا چوروں کی بھرمار باغات کے ملازمین اور حصہ داروں کو دی جانے والی رپورٹ میں عبدل سب اچھا ہے کہتا تھااس لئے کہ عبدل باغات کے اس حصے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پزیر تھا جہاں اعلیٰ نسل کے درخت لگائے گئے تھے جن کی وجہ سے عبدل کی رہائش گا ہ تک موسمی اثرات زیادہ اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔
    sindh

    جواب دیںحذف کریں
  2. وزیر اعلی صاحب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے لسانیت کو فروغ دینے کی کوشش میں سکیورٹی فورسز پر برہمی دکھائی اور یہ بھی نہ سوچا کہ رانجھانی کا کردار کیسا تھا، مانا کہ رانجھانی جب زخمی ہوچکا تھا تو علاج معالجہ اسکا حق تھا جس سے اسے محروم رکھا اور تاخیر کی گئی۔ لیکن اس نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں پولیس مقابلے یا دفاعی طور پر کی گئی فائرنگ میں کتنے ہی مبینہ ڈاکو مارے جا چکے ہیں، اس شہر میں سب کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں سندھ کو دیے گئے پچھلے تمام دکھ بھلانے کے لیے وزیر اعلی صاحب کا یہ فھڑکتا ہوا خطاب کام کر گیا، اب سندھ کے عوام پچھلے تمام ظلم و ستم بھول کر وہی نعرہ لگائے گے، ذندہ ہے ،،،،،،،، ذندہ ہے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.