پس پردہ قوتوں کے ممکنہ اہداف


نئے پاکستان میں لوگ مشکلات کا شکار ہیں، پریشان ہیں، مسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن کمرتوڑ مہنگائی نے لوگوں کی نیندیں حرام کررکھی ہے۔ عام انتخابات میں جنہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دیا تھا  وہ  عمران خان کے حامیوں کو شرمندہ کرنے  کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا  وہ خود بھی کم شرمسار نہیں، اپنے آپ کو ملامت کررہے ہیں کہ انہوں نے غلط آدمی سے امیدیں باندھ رکھی تھیں۔

 لیکن ایک میں ہوں جو اب بھی سمجھتا ہوں کہ یہ ساری مشکلات عارضی ہیں۔ (اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کے اردگرد نا اہل لوگوں کی ایک ایسی فوج موجود ہےجس کے پاس کوئی پروگرام نہیں،  حکومتی وزراء اور  مشیروں کا  کام صبح و شام صرف ماضی کی حکومتوں پر الزام تراشی ہے اور وہ ملک کے مسائل کا تمام ملبہ نوازشریف اور آصف زرداری  پر ڈال کر بری الزمہ  ہونے کی کوشش کررہے ہیں) اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ مشکلات عارضی ہیں۔

 جو لوگ عمران خان کو لائے ہیں  وہ انہیں تمام تر مشکلات سے نکال  بھی لیں گے، ملکی معیشت بہتر ہوجائے گی، مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہوجائے گی، گیس ، بجلی حتیٰ  پانی کے بحران پر بھی قابو پالیا  جائے گا، عوام کی زندگی آسان ہوجائے گی،   ترقیاتی کام ہوں گے، نا مکمل منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچیں گے ،ہرطرف خوشحالی آئے گی۔ لیکن یہ سارے مسائل ایسے ہی حل نہیں ہوں گے،اس کے بدلے اس حکومت کو وہ کام کرنے ہوں گے جس کے لیے اس کو لایا گیا ہے۔


 حکومت نے آتے ہی بھونڈے انداز میں سب سے پہلے   ان اہداف پر  کام  شروع کر ہی دیا تھا لیکن پھر معاملات بگڑتے گئے  جس کی وجہ سے پس پردہ قوتوں کو عارضی طور پر  پسپائی اختیار کرنا پڑی۔اگر  کسی کا حافظہ کمزور نہ ہو تو یاد کریں اقتصادی مشاورتی کونسل میں عاطف میاں کو لانے کا مقصد کیا تھا ؟ وہ تو ردعمل  اتنا شدید تھا کہ سرکار  کو پیچھے ہٹنا  پڑا۔ 

عمران خان اتنے ضدی ہیں کہ ان سے مفاہمت یا مصالحت کی توقع نہیں کی جاسکتی ، انہیں مشورہ  دیا گیا  بلکہ ہدایت دی گئی کہ  فیصلے پر قائم رہنا بے وقوفی ہوگی، ممکنہ طور پر ایک ٹیسٹ کیس بھی تھا، اس کے بعد توہین رسالت کیس میں ملعونہ آسیہ کی بریت کا فیصلہ آتا ہے، آسیہ ملعونہ کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت سپریم کورٹ سے بری کیا گیا، اس کے بعد اچانک سکھ برادری سے ہمدری پیدا ہوگئی اور انتہائی عجلت میں  کرتارپور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا گیا،  اور ہنگامی طور پر کوریڈور کا نہ صرف افتتاح کیا گیا بلکہ تیزی سے کام بھی جاری ہے۔ 

اس دوران ایک اور کیس بھی جلد سامنے آگیا پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی کا اسمبلی میں اسرائیل کے حق میں تقریر کرنا اور اسرائیلی  صحافی کی طرف سے  چونکا دینے والا ٹویٹ جاری کرنا جس میں اسرائیلی طیارے کی پاکستانی حدود میں لینڈنگ کا دعویٰ کیا گیا طیارے میں اسرائیلی وزیراعظم سوار تھے۔ اگر چہ یہ افواہ تھی لیکن یہ بھی ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ کڑی سے کڑی  اگر ملادی جائے تو کہانی مکمل ہوتی ہے۔

 ایجنڈا کیا ہے؟یا عمران خان سے کیا کام لیے جاسکتے ہیں؟تو اس کا جواب ہے قادیانیوں کو ملک میں کلیدی عہدوں پر لانا، قادیانیوں کی  منشا کے مطابق ختم نبوت کے قانون میں ترمیم، قادیانیوں کے لیے کرتارپور بارڈر کھولنا، توہین رسالت قانون میں ترمیم ، اسرائیل کو تسلیم کرنا، یہ تمام کام ہوں گے وقت لگے گا لیکن پس پردہ قوتوں کے اہداف یہی ہیں۔

 اس کے بدلے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینا یا پاکستان کو ایک خوشحال ملک بنانا مہنگا سودا نہیں۔ اگر عمران خان کی حکومت ملک کو صحیح سمت گامزن کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر کسی بھی قانون میں ترمیم یا آئین سے چھیڑ چھاڑ  اس حکومت کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ، نہ ہی  کسی قسم کی  مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو ماضی میں متوقع تھی۔

 اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان کاموں کے لیے عمران خان کو کیوں چنا گیا؟ زرداری بہتر چوائس نہیں تھے یا نوازشریف؟ تو اس کا جواب انتہائی سادہ اور آسان ہے۔ آصف زرداری یا ان کی پارٹی عوامی مقبولیت کھوچکی تھی جبکہ نواز شریف بہت کوشش کے باوجود  کبھی بھی بائیں بازو کی قوتوں کا  پسندیدہ لیڈر نہیں رہے پس انہیں  عمران خان کی شکل میں ایک ایسا مقبول لیڈر ملا جو اپنی پالیسی یا بیانات کی وجہ سے دائیں بازو یا نسبتاً  مذہبی پس منظر رکھنے والے پاکستانیوں کو تو قبول  تھا ہی، وہ افغانستان میں امریکی حملوں، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن کا بھی ہمیشہ سے ناقد رہا۔ 

 اپنی گفتگو اور بیانات سے خود کو کٹر قسم کا انتہاپسند پاکستانی یا قبائلی ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا حالانکہ عملی طور پر وہ اس سے کوسوں دور تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ رنگین ماضی اور  زندگی کا طویل عرصہ مغرب میں گزارنے کی وجہ سے وہ نام نہاد لبرل ، خواتین اور نوجوان طبقے کا  بھی پسندیدہ لیڈر تھا  اس کے علاوہ  ایک اور پلس پوائنٹ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی کرپشن اور بیڈ گورننس  تھی جس کی وجہ سے  غیرمرئی قوتوں نے  عمران خان کو مضبوط متبادل کے طور پر پیش کیا، رہی سہی کسر خلائی مخلوق نے پوری کی۔ 

تو صورتحال اس وقت کچھ یوں ہے کہ عمران خان کی حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہے لیکن اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے قائدین بار بار کہہ چکے ہیں وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کریں گے یعنی  وہ عمران خان کے لیے خطرہ نہیں اس کی بڑی وجہ تو کرپشن کیسز کی وہ تلوار ہے جو ہر وقت ان کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ 

تمام تر نا اہلیوں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت پانچ سال پورے کرے گی ، شروع کے دو سال مشکل ہیں اس کے  بعد راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔  آخری بات ،،،میں نے اس کالم میں جو لکھا ہے اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہم پاکستانیوں  کی عادت ہے کہ ہر چیز میں خوامخواہ سازش ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں لیکن  پھر بھی  آپ  کڑی  سے  کڑی ضرور ملائیں۔



 خیراللہ عزیز سینئر صحافی ہیں۔ ایک پشتو زبان کے ٹی وی چینل لانچ کرچکے ہیں۔ اس وقت وہ ایک اردو نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحاریر دیگر ویب سائٹس اور جرائد میں بھی شایع ہوتی ہیں۔ خیراللہ عزیز سے ٹوئیٹر  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

1 تبصرہ:

  1. نئے پاکستان میں لوگ مشکلات کا شکار ہیں، پریشان ہیں، مسائل تو بہت زیادہ ہیں لیکن کمرتوڑ مہنگائی نے لوگوں کی نیندیں حرام کررکھی ہے۔ عام انتخابات میں جنہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف ووٹ دیا تھا وہ عمران خان کے حامیوں کو شرمندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا وہ خود بھی کم شرمسار نہیں، اپنے آپ کو ملامت کررہے ہیں کہ انہوں نے غلط آدمی سے امیدیں باندھ رکھی تھیں۔
    siasi discussion

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.