اٹھارویں ترمیم ۔۔۔ راستہ یا منزل؟

18th amendment - course or destination


پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 میں ملک کو ایک متفقہ آئین دیا جس کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا انتظام پارلیمانی نظام کے تحت چلے گا، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں آصف علی زرداری صدر بنے تو انہوں نے آئین پاکستان کو اصل شکل میں بحال کیا اور پھر پارلیمان نے آئین میں تاریخ ساز 18ویں ترمیم کی متفقہ منظوری دی،جس کے تحت صوبائی خودمختاری کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا تھا۔

18 ویں ترمیم کا حامی ہونے کے باعث اپوزیشن کی طرح مجھے بھی حکومتی اقدامات پر شکوک و شبہات ہیں لیکن اکثر یہ سوال ذہن میں جنم لیتا ہے کہ کیا 18 ویں ترمیم اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے ایک راستہ ہے یا پھر از خود ایک منزل؟ کیونکہ 2015 میں سپریم کورٹ کے حکم پر بحالت مجبوری کرائے گئے بلدیاتی انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی نے سندھ میں اور نواز لیگ نے پنجاب میں سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانونی سازی کے ذریعہ کئی بلدیاتی اختیارات پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد کراچی سمیت سندھ اور پنجاب بھر سے بلدیاتی انتخابات میں کامیاب نمائندے  عملا ً بے اختیار ہوگے۔

کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کردیا گیا جیسے اندرون سندھ میں اگلے روز سے ہی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہونا شروع ہو جائیں گی، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی اہمیت تو پہلے ہی ملیر اور لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹیز قائم کرکے کم کردی گئی تھی مگر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ تو بغیر نام تبدیل کئے ہی وزیر بلدیات کا ماتحت ہے۔

ستم یہ کہ کراچی کا کچرا اٹھانے میں پیسے نظر آئے تو وہ اختیار بھی کراچی کے بلدیاتی نمائندوں سے چھیننے کیلئے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے نام سے نیا ادارہ قائم کرکے چینی کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا۔

بلدیاتی نمائنددوں سے اتنے سارے اختیارات چھیننے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا، میئر کراچی جب کہیں گے کہ کچرا اٹھانا قانوناً میرا کام نہیں تو میڈیا ان کے لتے لے گا اور پھر وہ وضاحتیں دیتے رہیں گے، اور یوں ہنستے کھیلتے پانچ برس بیت جائیں گے، لیکن یہ سب سوچنے والے کو اندازہ نہیں تھا کہ بیچ میں کہیں تحریک انصاف کی حکومت آجائے گی، یہ جماعت انتہائی اناڑی اور بدتمیز افراد پر مشتمل ہے جنہیں عوامی حمایت کے حصول کے نتیجے میں اب رہنماؤں کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔

وزیر اعظم سے لے کر علیم عادل شیخ تک سب کے سب ایسے بیانات داغتے ہیں کہ گویا 18 ویں ترمیم رول بیک کرنے سے ہی ملک کےسارے مسائل حل ہوسکتے ہیں لہذا ترمیم کو رول بیک کرنے کا فیصلہ کرہی لیا گیا ہے، اگر ایسا ہے بھی تو اس کا عوام کو کوئی فائد ہے اور نہ نقصان، کیونکہ اٹھاریں ترمیم اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے ایک راستہ ہے، جب پیپلز پارٹی سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں اس راستے پر چلنا ہی نہیں چاہتیں تو منزل پر پہنچنے کا گمان رکھنا ہی عبث ہے۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.