شبو کا رویہ

Government offices needs to be overhauled

تحریر : شاہد انجم

بند کمرے میں چار دوست تھکاوٹ اور ذہن پر بہت سا بوجھ لئے اس سوچ میں تھے کہ ان پریشانیوں سے فرار کا راستہ اختیار کیا جائے- مگر کوئی بھی اس پریشانی کا حل بتانے کے لئے تیار نہ تھا۔ آخر کار ظفر نے حل بتانے سے قبل تمام دوستوں سے وعدہ لیا کہ اس کا مشورہ اگر اچھا نہ لگے تو وہ معافی کا طلب گار ہو گا۔  

پریشانیوں میں گھرے دوستوں کی یقین دہانی کے بعد ظفر نے لڑکھڑاتی زبان سے کہا کہ آج ہفتے کا آخری روز بھی ہے موقعہ بھی ہے دستور بھی کیوں نہ شراب اور شباب کا اہتمام کیا جائے۔ ظفر کی اس بات پر دبے لفظوں میں سب نے اتفاق کیا اور پروگرام طے ہوگیا وقت مقرر کیا گیا جگہ کا نام بتا کر رات دس بجے پہنچنے کا کہا گیا۔ انتظامات کی ذمہ داری تمام دوستوں میں بانٹ لی گئی وقت پر تمام دوست مقررہ مقام پر پہنچ گئے-

رات کافی ہوچکی تھی کہ محفل میں موجود زاہد نے ناچنے والی خاتون سے کہا کہ اگر آپ کو کچھ دیر آرام کرنا ہے تو ہماری طرف سے اجازت ہے جس پر شبو نے جواب دیا کہ ناچنے کے پیسے میں لے چکی ہوں لہذا یہ میری ذمہ داری ہے  اگر میں اس میں کوتاہی کروں گی تو میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرے گا۔

شبو کی یہ بات سن کر زاہد نے کہا واہ شبو واہ تم بے شک کام جو بھی کررہی ہو لیکن کر ایمانداری سے کر رہی ہو اور جو ملازمت ہم کررہے ہیں وہ ایمانداری سے نہیں نبھا رہے۔ شبو کی اس بات نے تھکن دور کرنے والے افراد پر گہرے اثرات چھوڑے۔ 

شبو کی یہ کہانی سن کر مجھے ملک کے سرکاری محکموں میں تعینات افسران اور ان کے ماتحت عملے پر افسوس ہوتا ہے جوکہ کئی برسوں سے اپنے  عہدوں پر براجمان ہیں، کہنے کو وہ عوام کے خدمت گار اور سرکار کے ملازم ہیں مگر ان کے رویے کتنے تلخ اور دل خراش ہیں کہ وہ لوگوں کا کام  نہ کرنے کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔

میں کسی ایک سرکاری دفتر کی بات نہیں کررہا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ تمام دفاتر میں بھرتی کئے گئے ملازمین ایک ہی تربیت گاہ سے درس لے کر  آئے ہیں کی کسی کو پریشانی سے نہیں بچانا۔

افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ہر آنے والی حکومت اس رویے کی تبدیلی کا نعرہ بھی لگاتی ہے اور دعوی ٰبھی کرتی ہے مگر من پسند افراد کو تعینات کرکے شہریوں کو نئی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔  سرکاری عہدوں پر تعینات  افسران و ملازمین کے ایسے رویے پر حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے تاکہ شہری دلبرداشتہ ہونے کے بجائے یہ کہہ سکیں کہ ہمارے نام پر قرض لے کر حکومت جن کو اجرت اور مراعات دیتی ہے کم از کم وہ ہمارے خادم  تو ہیں۔ ذرا سوچئے، ذرا سوچئے۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

2 تبصرے:

  1. بہت خوب، شبو بڑی ایمانداری سے کام کرتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. مختصر تحریرمگر پیغام بھر پور ۔۔۔کاش متعلقہ لوگوں تک پہنچ جاٸے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.