ہجر کی رات


تحریر: شاہد انجم

خواہش بھی تھی  اور  ایک حسرت دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے سورج کی  آخری کرنوں کی روشنی مدھم ہونے کو جارہی ہے  شاید چاند بھی منہ موڑ چکا ہے  یوں  لگ رہا ہے جیسے اب ہجرکی راتیں شروع ہو گئیں ہیں سناٹا سا چھا رہا ہے اور دل کی باتیں دل میں ہی رہ جائیں گی جنگل میں بنی ایک جھگی میں لیٹا ہوا ضعیف العمر شخص آسمان کی طرف دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور تھا کہ آنے والے وقت میں ہونے والے فیصلے کیا وہ کر پائے گا اس لئے کہ اسے موجودہ حالات میں اپنے  کنبے  کا شیرازہ بکھرتا نظر آرہا تھا  اور  باقی فیصلے  کہیں  اور  ہوتے ہوئے اس پر مسلط کئے جائیں گے  ایسے حالات میں وہ کیا اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھا بھی سکے گا یا نہیں؟ 

کیا یہ روایات ہیں یا پھر کوئی دوسری طاقت اپنا زور دکھانے کے لئے یہ سب کچھ کرنا چا رہی ہے؟ ایسا تو نہیں ہے کہ پھر عسکری طاقت کو اپنے ہاتھ میں لے کر رقیب کو یہ واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ اصل طاقت ہمارے پاس ہے اور ہم جب چاہیں حالات کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔

  جنگل کے اس ضعیف العمر شخص کی بات کو سنجیدگی سے سوچتے ہوئے میں حکومت سندھ کی مجوزہ قانون سازی پر غور کررہا تھا  جس کے تحت آئی جی سندھ کے اختیارات میں کافی حد تک کمی کرنے کی بات کی جائے گی بلکہ صوبے کی پولیس کے سربراہ صرف چھوٹے افسران کا تبادلہ ہی کرسکے گا  جن میں ڈی ایس پی کے عہدے کے افسران شامل ہیں جبکہ ایس پی  اور  اس سے بڑے افسران کی تقرری اور  تبادلے سیاسی منشا پر کئے جائیں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سیاسی  حکومت ،،،سندھ پولیس کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی خواہش پر گامزن  ہے  صوبائی حکومت کے  اس اقدام کے بعد پولیس کا کردار کس حد تک فعال رہے گا  اور  وہ کتنا غیر جانب دار ہو کر اپنے معاملات کو نمٹائے گی اس کا اندازہ ہر ذی شعور بخوبی لگاسکتا ہے۔

  آئی جی سندھ کے  اختیارات میں تبدیلی کی جو اطلاعات ہیں اس سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ محکمہ پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے بالکل  محصور کردیا جائے گا جبکہ موجودہ صورتحال کو اگر مدنظر رکھا جائے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی اداراہ بنایا جائے تاکہ وہ معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔

محکمہ پولیس کو غیر جانبدار کرنے کے بجائے سیاسی نکیل ڈال کر  غلام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر ایسا ہو ا تو  دوہرا معیار کھل کر سامنے آ جائے گا لہذا حکومت وقت کو اس بات پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ جو کنواں آج تم کھود رہے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل تم خود اس میں گر جاؤ،،،،ذرا سوچئے ذرا ۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.