ایک یونین کونسل کی ہار


تحریر: کاشف فاروقی

سپریم کورٹ کے حکم پر شہر قائد میں تجاوزات کے خلاف تاریخی کاروائی جاری ہے اور کے ایم سی اپنی بنائی مارکیٹیں تک ایک ایک کرکے منہدم کررہی ہے، سیاسی جماعتیں شور مچار رہی ہیں کہ لوگوں کے کاروبار تباہ ہورہے ہیں، لوگ بے روزگار ہورہے ہیں مطالبہ ہے کہ متبادل فراہم کئے بغیر تجاوزات کے خلاف کاروائی نہ کی جائے مگرعدالت کا حکم ہے لہذا کاروائی بلاتعطل جاری ہے، ایمپریس مارکیٹ کے بعد اب تو کورنگی اور چڑیا گھر کے اطراف کی مارکیٹیں بھی ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اردو بازار کا بڑا حصہ، جوبلی مارکیٹ کے دکانداروں کو بھی نوٹس مل چکے ہیں لیکن وہ لمحہ آج تک نہیں آیا جس کا اہل کراچی کو کئی برسوں سے انتظار ہے۔

چائنہ کٹنگ کے خلاف تحقیقات ہوئیں یا شاید ابھی تک جاری ہیں جو نہ جانے کب تک جاری رہیں گی، چنو ماموں، رئیس مما، سعید بھرم، حماد صدیقی اور شاکر لنگڑا سمیت کئی دیگر پر الزامات ہیں مگر شہر کے سیکڑوں پارک اور دیگر ہزاروں رفاعی پلاٹس پر رہائشی اور تجارتی عمارات کب اور کیسے بن گئیں سب کو پتہ ہے۔

چائنہ کٹنگ کا آغاز کب اور کیسے ہوا یہ سوال کئی برسوں سے ذہن میں گھوم رہا تھا اور بلا آخر آج اس کا جواب مل ہی گیا۔ ایک ایسے سرکاری افسر سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی جو نعمت اللہ خان اور مصطفٰی کمال کے ادوار نظامت میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں، موصوف نے بتایا کہ یہ قصہ ہے 2005 کا جب نعمت اللہ خان کا دور نظامات ختم اور مصطفٰی کمال کا شروع ہوچکا تھا، ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں فتح یاب ہونے کے باوجود نارتھ ناظم آباد کی ایک یوین کونسل مکمل طور پر ہار گئی اور یہ یونین کونسل جیتی تھی جماعت اسلامی نے، یہ ناکامی ایم کیو ایم کیلئے غیر معمولی تھی لہذا پارٹی نے اعلٰی ترین سطح پر اسکا نوٹس لیا اور سابق وفاقی وزیر کی نگرانی میں اجلاس بلایا گیا، اس اجلاس میں ایک شخص ایوب غوری بھی شریک تھا جو تھا تو کے ایم سی کا کلرک لیکن تھا انتہائی ہوشیار۔

تجویز پیش کی گئی کہ رفاعی پلاٹس اور پارکس پر 80 اور 120 کے رہائشی پلاٹس کی تشکیل کا اختیار قانونی طور پر ڈائریکٹر لینڈ کو ہے لہذا جس یونین کونسل میں شکست ہوئی ہے وہاں شہدا کے ورثا کو پلاٹس دے کر اپنے ووٹوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، تجویز پر عمل شروع ہوا اور مرحومین کے فہرستیں مرتب کی گئیں اور یہاں سے شروع ہوا "چائنا کٹنگ" کا گندا دھندا۔

شہدا کے نام پر شروع کی جانے والی چائنہ کٹنگ جلد ہی مال بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ شہر میں کوئی ایسی خالی جگہ نہیں بچی جہاں چائنہ کٹنگ نہ کی گئی، کروڑوں کے پلاٹس لاکھوں میں فروخت کردیئے گئے اور ایوب غوری سمیت بہت سے لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی ہوگئے۔

نعمت اللہ خان نے اس معاملے کو دیکھتے ہوئے عدالت اعظمٰی سے رجوع کیا مگر ان کی درخواست پر اسٹے جاری کردیا گیا جو آج بھی موجود ہے۔

اس قبضہ میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ مجھے نہیں معلوم لیکن نعمت اللہ خان کی درخواست پر کاروائی دوبارہ شروع ہوچکی ہے، نعمت صاحب طبیعت کی خرابی کے باعث عدالت میں حاضر نہیں ہوپاتے مگر توقع ہے کہ مفاد عامہ کے اس معاملے کو عدالت منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ 



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔
 
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.